Wednesday, 2 January 2019

IND: HINDUATA ON PUBLIC FIGHT SHAMEFULLY ON MONTHLY DISCHARGE PADS

ACTON RESEARCH FORUM IS ASHAMED OF MONTHLY DISCHARGE WOMEN PADS, HOW COME IT IS RELIGION OF NOBILITY. HUMANITY IS ASHAMED BUT NOT MODI TEA SELLER  PM OF INDIA, THINK OF NATION WHOSE PM IS MODI OF MINDSET. WITH MINDSET TEA SELLOR IN KERALLA WHILE SEARCHING LOST HANUMAN BHAGWAN TO STRENGTHEN THEIR BELIEF FOR RIDE OF RAM CROSSING WATERS FOR PURIFICATION, WHICH ERA THEY ARE ARE LIVING, WHILE PEOPLE ARE CROSSING GALAXY; SEE MORE

IND; TEA SELLOR MODI DEMANDING … https://b4gen.blogspot.com/2019/01/ind-tea-sellor-modi-demanding-more.html


Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-45966955

کیا آپ خون آلود پیڈ کے ساتھ دوست کے گھر جائیں گے؟



سمرتی ایرانی کی اس منطق سے کون انکار کرسکتا ہے؟تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionسمرتی ایرانی کی اس منطق سے کون انکار کرسکتا ہے؟

انڈیا کی وفاقی وزیر سمرتی ایرانی ہندو ہیں، جبکہ ان کے شوہر اور دو بچے پارسی ہیں۔ بچے اور شوہر پارسیوں کی عبادت گاہ ’فائر ٹیمپل‘ میں بے روک ٹوک جاسکتے ہیں لیکن سمرتی ایرانی کو وہاں عبادت کے لیے جانے کی اجازت نہیں ہے۔
لیکن اس پر انھیں کوئی اعتراض بھی نہیں۔
ان کے مطابق حیض یا ماہواری کے عمل سے گزرنے والی کسی بھی عمر کی پارسی یا غیر پارسی عورتیں فائر ٹیمپل میں داخل نہیں ہوتیں، اور سمرتی ایرانی کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ عورتوں کو ’عبادت کرنے کا حق حاصل ہے، بے حرمتی کرنے کا نہیں۔‘
تو ثابت یہ ہوا کہ دنیا واقعی گول ہے! اگر آپ ایک ہی سمت میں چلتے رہیں تو گھوم کر وہیں پہنچ جائیں گے جہاں سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ بس شرط یہ ہے کہ راستے میں کوئی عبادت گاہ نہ پڑے کیونکہ پھر ہو سکتا ہے کہ آپ سپریم کورٹ پہنچ جائیں۔
اس سفر کا آغاز کیرالہ کے سبری مالا مندر سے ہوا تھا۔ وہ قدیم مندر جہاں صدیوں سے دس سال سے لیکر پچاس سال تک کی عمر کی عورتوں کے داخلے پر پابندی ہے کیونکہ ہندو مانتے ہیں کہ ان کے بھگوان ایپا برہم چاری تھے۔
اس لیے وہاں ان عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے جو حیض کے عمل سے گزرتی ہیں۔
حقوق نسواں کے لیے آواز اٹھانے والی کچھ خواتین نے عدالتوں سے رجوع کیا اور لمبی قانونی لڑائی کے بعد گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے یہ حکم دیا کہ صنف کی بنیاد پر یہ تفریق غیر آئینی ہے اور مندر میں جو چاہے، جا کر پوجا کرسکتا ہے۔
لیکن عدالت کے حکم کے باوجود بھگوان ایپا کے عقیدت مندوں نے عورتوں کو مندر میں داخل نہیں ہونے دیا ہے۔
سمرتی ایرانی سے اسی تنازع کے بارے میں ان کی رائے معلوم کی گئی تھی۔ جواب میں انھوں نے کہا کہ ’میں وفاقی کابینہ کی رکن ہوں اس لیے مجھے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف بولنے کا حق حاصل نہیں ہے، لیکن یہ کامن سینس کی بات ہے کہ کیا آپ ماہواری کے خون آلود سینیٹری پیڈ لیکر کسی دوست کے گھر میں داخل ہوں گے، نہیں آپ ایسا نہیں کریں گے۔‘
سمرتی ایرانی کی اس منطق سے کون انکار کرسکتا ہے؟
دنیا میں مرد یا عورت، کون ایسا شخص ہوگا جو سینیٹری نیپکن خون میں ڈبوئے گا اور اسے لیکر اپنے دوست کے گھر جائے گا؟
یہاں تک بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس کے بعد سمرتی ایرانی نے کہا کہ ’آپ کے خیال میں کیا خدا کے گھر میں ایسا کرنا مناسب ہوگا، بس یہ ہی فرق ہے۔ میرے خیال میں مجھے عبادت کرنے کا حق تو حاصل ہے لیکن بے حرمتی کرنے کا نہیں۔ ہمیں اس فرق کو سمجھنا اور اس کا احترام کرنا چاہیے۔‘
اس کے بعد شاید بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
آخری مرتبہ آپ نے حیض کے خون میں لتھڑا ہوا سینیٹری نیپکن ہاتھ میں اٹھائے کسی عورت کو کہیں جاتے ہوئے کب دیکھا تھا؟ لیکن یہ شاید صرف کہنے کا انداز تھا۔ سوال یہ ہے کہ حیض کا خون جسم پر چوٹ لگنے کے بعد نکلنے والے خون سے کس طرح مختلف ہے؟ (تھوڑا الگ ہوتا ہے، اس میں بچہ دانی کا ٹشو، اور کچھ ’میوکس‘ بھی شامل ہوتا ہے لیکن یہ بھی جسم کا خون ہی ہے)۔ کیا جو عورتیں حیض کے عمل سے گزرتی ہیں وہ ناپاک ہو جاتی ہیں یا یہ صرف ’ہائجین‘ یا صفائی ستھرائی کا معاملہ ہے جو سینیٹری پیڈ سے آسانی سے حل ہو جاتا ہے۔
سبری مالا کا کیس بالکل ہی مختلف ہے۔ وہاں صرف ماہواری کے چار پانچ دونوں کے لیے ہی نہیں، اس وقت تک داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی جب تک عورتیں حیض کی عمر سے گزر نہ جائیں!
سمرتی ایرانی کی منطق سے تو وہ تقریباً چالیس برس تک ناپاک رہتی ہیں، چاہے نیپکن ہاتھ میں ہو یہ نہ ہو۔ مندر کے پجاریوں کی منطق مانیں تو انھیں حیض کے عمل سے گزرنے والی عورتوں سے ہی مسئلہ ہے، صرف حیض کے عمل سے نہیں۔
اس پوری بحث میں مذہبی عقائد کا بھی پہلو ہے، اظہار خیال کی آزادی کا بھی، اور جیسا سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا، مساوات کا بھی۔
سوشل میڈیا پر جب سمرتی ایرانی کے بیان پر نکتہ چینی شروع ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ’مجھے اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ بحیثیت ایک عورت مجھے اپنی علیحدہ رائے قائم کرنے کا حق نہیں ہے، اگر میں "لبرل" یا روشن خیال لوگوں کی رائے سے اتفاق کروں تو سب ٹھیک ہے، یہ کیسی روشن خیالی ہے؟‘
سمرتی ایرانی صاحبہ، ایسے مذہبی عقائد اور ایسی روایتیں جو موجودہ دور کے قوانین اور تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتیں، ان کا وقت ختم ہو رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ہندو بیوائیں اپنے شوہر کی ’چتا‘ پر جل کر جان دے دیتی تھیں۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ وہ حیض کے عمل سے گزر رہی ہیں یا نہیں، اور جب بیوی اپنے شوہر سے پہلے گزر جاتی تھی تو شوہر فوراً دوسری شادی کر لیتا تھا۔ اس روایت کے خلاف روشن خیال لوگوں نے ہی آواز اٹھائی تھی۔
ایسی مثالیں بہت ہیں۔ کچھ مذہبی، کچھ معاشرتی۔ کئی فرسودہ دیواریں گر چکی ہیں، کچھ گرنا باقی ہیں۔
لڑکیوں کو پڑھانے کی بھی مخالفت ہوتی تھی لیکن آج آپ ایک طاقتور وفافی وزیر ہیں۔۔۔ کم عمر میں لڑکیوں کی شادیاں، انھیں کام کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ ملنا، انھیں لڑکوں جیسی خوراک سے محروم کیا جانا، اور ہاں پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کردینا۔۔۔اس سب کے خلاف لڑائی روشن خیال لوگ ہی لڑ رہے ہیں۔
تو سوشل میڈیا پر آپکے اس بیان کے بارے میں لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟
ٹوئٹر پر امن دیپ سنگھ نے لکھا ہے کہ ’کیا آپکے خیال میں حیض کے دوران لڑکیوں کو اپنے کمرے تک ہی محدود رہنا چاہیے؟‘
ٹوئٹر پر ہی ایک خاتون پردنیا مائکر لکھتی ہیں کہ ’کبھی تو سیاست کرنے سے باز آئیں، اس اشو کو آپکو ایک عورت کی نظر سے دیکھنا چاہیے تھا، آپکے پاس یہ کہنے کا موقع تھا کہ ماہواری مہاماری (وبا) نہیں ہے، لیکن آپ ایک سیاسی رہنما سے زیادہ کچھ نہیں نکلیں۔‘
جواب میں نیرج کمار سنگھ نے لکھا ہے کہ ’مندر کوئی تفریح کی جگہ نہیں ہے، اگر عقیدہ ہے تبھی جائیں ورنہ نہیں، اور مندر کی روایات کا احترام کریں۔‘
سمرن بنسل کا کہنا ہے کہ ’اگر کوئی لڑکی حیض کے دوران اپنی دوست کے گھر جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنی دوست کو خون میں سنا ہوا نیپکن "پیش" کر رہی ہے۔ ایک طرف آپ کی حکومت بیٹیوں کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف آپ انھیں شرمندہ کر رہی ہیں۔‘
’مارس گرل‘ کا کہنا ہے کہ عورتیں مندر میں اپنا جسم پیش کرنے نہیں جاتیں، وہ عبادت کے لیے جاتی ہیں۔۔۔افسوس کہ ایک وزیر ہوکر آپنے ایسی بات کہی ہے۔
اور نیتی شرما کہتی ہیں کہ ’دو پارسی بچوں کی ماں کی جیثیت سے آپ کیا کرتی ہیں اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، ہمیں جہاں ہم چاہیں وہاں عبادت کرنے کا حق چاہیے۔‘
ظاہر ہے کہ سمرتی ایرانی کے موقف سے اتفاق کرنے والے بھی ہیں، لیکن بہت زیادہ نہیں۔
کپل اندورا کا کہنا ہے کہ ’میڈم یہ ہندو مذہب کو بدنام کرنے کی سازش ہے، ہم آپ کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔‘
مذہبی عقائد کے سوال پر بحث کبھی آسانی سے ختم نہیں ہوتی، اجودھیا میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی کا تنازع اس کی ایک مثال ہے۔
لیکن یہ بحث صرف مذہبی عقائد کے بارے میں نہیں ہے۔
کچھ عورتیں اس سوچ کو بدلنا چاہتی ہیں کہ حیض کے دوران وہ ناپاک ہو جاتی ہیں۔ سمرتی ایرانی کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ ان کے ساتھ چلیں یا پھر عبادت گاہوں کے باہر ہی انتظار کریں!


No comments:

Post a Comment