Source: https://www.bbc.com/urdu/science-45002819
دنیا کے سات مقدس ترین پودے کون کون سے ہیں؟
بہت سی مذہبی روایات میں پودوں کو روحانی علامت، شفایابی، قوت بخشی اور بعض اوقات خدائی تعلق کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
موسیقار جانہوی ہیریسن نے ’مقدس نباتیات‘ کے نام سے ایک البم ترتیب دیا ہے جس میں سات قابل احترام سمجھے جانے والے پودوں کا ذکر ہے۔
لیکن ان مقدس پودوں میں کیا خصوصیات ہیں؟ کیا یہ پودے لوگوں کی زندگی میں ماضی کی طرح آج بھی اہمیت کے حامل ہیں؟ ان کا احترام کون لوگ کرتے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر کیوں؟ دنیا کے مقدس ترین پودوں کی یہ فہرست، ان کا ماضی اور حال ان سوالات کے جواب حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
1. کنول کا پھول
مشرقی روحانیت کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ کنول کا پودا کئی معانی اور بیانیوں کی پرتیں ظاہر کرتا ہے۔ ہندوؤں کے لیے کنول کا خوبصورت پھول زندگی اور پیداوار اور بودھوں کے نزدیک یہ پاکیزگی کی علامت ہے۔
کنول کا پودا کیچڑ میں اگتا ہے۔ اگرچہ اس کی جڑیں کیچڑ میں ہوتی ہیں لیکن کنول کا پھول پانی کے اوپر تیرتا دکھائی دیتا ہے۔
ہندو مذہب میں کنول کی کہانی کچھ یوں ہے کہ کنول بھگوان وشنو کی ناف سے ابھرا، اور اس پھول کے درمیان برہما بیٹھا ہوا تھا۔ کچھ کا خیال ہے کہ بھگوان کے ہاتھ اور پاؤں کنول جیسے ہیں اور اس کی آنکھیں کنول کی پتیوں کی طرح اور اس کے چھونے کا احساس کنول کی کلیوں کی طرح نرم۔
2. امربیل
آج کل امربیل کو عموماً کرسمس کے جادو سے منسلک کیا جاتا ہے لیکن اس کو علامت سمجھنے کی تاریخ قدیم سیلٹک پیشواؤں کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔
انھیں یقین تھا کہ امربیل سورج کے دیوتا تارنس کا جوہر ہے، اور جس درخت کی شاخوں کے ساتھ امربیل بڑھتی ہے وہ درخت بھی مقدس ہو جاتا ہے۔
سردیوں میں روحانی پیشوا بلوط کے درخت سے امربیل کو سنہری درانتی سے کاٹتا ہے۔
یہ خاص پودا اور اس کے پھل رسومات یا ادویات کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
3. ناگ پھنی
ناگ پھنی ایک چھوٹا سا گٹھلی کے بغیر کیکٹس کا پودا ہے جو امریکی ریاست ٹیکسس کی جنوب مغربی اور میکسیکو کے صحرائی علاقے میں قدرتی طور پر اگتا ہے اور اس کا استعمال مقامی افراد روحانی مقاصد کے لیے کرتے ہیں۔
میکسیکو کے انڈینز اور شمالی امریکہ کے مقامی قبائیلیوں کا اعتقاد ہے کہ یہ مقدس پودا خدا کے ساتھ رابطے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اس کا استعمال دعائیہ تقریبات میں کیا جاتا ہے۔
روحانی طاقتوں کے لیے صرف مقامی قبائل ہی اس کا استعمال نہیں کرتے۔
1950 کی دہائی سے فنکار، موسیقار اور مصنفین بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔
کین کیسی کا دعویٰ تھا کہ 'ون فلیو اوور دی ککوز نیسٹ' کے ابتدائی صفحات لکھتے ہوئے وہ ناگ پھنی کے نشے میں تھے۔
4. تلسی (اوسیمم ٹینوئفلورم)
ہندو مذہب کے مطابق دیوی ورندا نے بھگوان کرشنا اور اس کے پیروکاروں کی خدمت کرتے ہوئے وندراون کی مقدس زمین کی حفاظت کی تھی۔
اگرچہ یہ دیوی انسانی شکل میں تھیں لیکن قدیم تحریروں کے مطابق کرشنا نے بذات خود انھیں تلسی کا پودا بننے کا کہا تھا، جس کی وجہ سے اب تلسی مقدس کہلاتی ہے۔
دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں ہندو اپنے گھروں اور مندروں میں تلسی کی پوجا کرتے ہیں۔
5. صنوبر کا درخت
صنوبر کی ایک قسم یئو سدابہار درخت ہے جسے تولید اور ابدی زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس درخت کی شاخیں جھک کر دوبارہ زمین میں داخل ہو جاتی ہیں اور ان سے نئے تنے جنم لیتے ہیں۔
اس کے علاوہ یئو پرانے درخت کے کھوکھلے تنے سے بھی اگ سکتی ہے۔ اس لیے یہ تعجب کی بات نہیں کہ اسے تولید اور زرخیزی کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔
6. بھنگ
بھنگ راستافاری فرقے کے ماننے والوں کے نزدیک انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ بائبل میں جسے 'زندگی کا درخت' کہا گیا ہے وہ بھنگ کا پودا ہے اور اس کا استعمال مقدس ہے۔ وہ اس بارے میں بائبل سے کئی حوالے پیش کرتے ہیں۔
راستافاریوں کے نزدیک بھنگ کا استعمال 'گفت و شنید' کے لیے ضروری ہے جس میں وہ راستافاری پہلو سے اپنے ارکان کے ساتھ زندگی پر بحث کرتے ہیں۔
اگرچہ اس پودے کو کئی نام دیے جاتے ہیں (بھنگ، گانجا) لیکن راستافاری اسے 'مقدس جڑی بوٹی' یا 'حکمت کی بوٹی' کہتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اس نوش کرنے سے حکمت و دانائی حاصل ہوتی ہے۔
اس کو سگریٹ یا چلم پائپ کے ذریعے پیا جاتا ہے اور اس سے قبل خصوصی دعا کی جاتی ہے۔
7. تلسی (اوسیمم بازلیکم)
اوسیمم بازلیکم کا سب سے زیادہ استعمال پیزا اور پاستا ساس میں ہوتا ہے لیکن آرتھوڈاکس مسیحیت اور یونانی چرچ میں یہ ایک مقدس بوٹی ہے۔
آرتھوڈوکس مسیحیوں کا یقین ہے کہ یہ بوٹی وہاں اگی جہاں یسوع مسیح کا خون ان کے مقبرے کے نزدیک گرا تھا، اس وقت یہ اس کو صلیب کے ساتھ عبادات سے منسلک کیا جاتا ہے۔
پادری مقدس پانی کو پاک کرنے اور لوگوں کے اجتماع پر پانی کے چھڑکاؤ کے لیے اس کی شاخوں کا استعمال کرتے ہیں۔
جانہوی ہیریسن کی بی بی سی کے پروگرام سم تھنگ انڈرسٹڈ میں کی گئی گفتگو سے اقتباس۔
No comments:
Post a Comment