Wednesday, 2 January 2019

IND; TEA SELLOR MODI DEMANDING MORE DUALS WITH PAK AFTER LOSS OF HIDUATA ELECTIONS

ACTION RESEARCH FORUM; MODI MIND IN BLASTING, AFTER THE PUBLISHED RESEARCH "RESEARCH NULLIFIES https://b4gen.blogspot.com/2018/12/research-indicates-nullifies-hinduata.html"

HIDUATA GEETA AND FAKE RELIGION, MODI MIND 

FITS NO WHERE EXCEPT MENTAL HOSPITAL OF 

BARAILY OR AGRA FOR TREATMENT TO PROTECT 

INDIA PUBLIC.  



Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-46730701

نریندر مودی: ’پاکستان ایک لڑائی سے نہیں سدھرے گا‘


مودیتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionنریندر مودی نے کہا کہ سرجیکل سٹرائکس کا فیصلہ ایک 'بڑا خطرہ' تھا

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ’ایک لڑائی سے پاکستان سدھر جائے گا یہ سوچنا بہت بڑی غلطی ہوگی، پاکستان کو سدھارنے میں ابھی اور وقت لگے گا۔‘
دہلی میں بی بی سی کے نامہ نگار سہیل حلیم کے مطابق نریندر مودی نے یہ بات خبر رساں ادارے اے این آئی سے ایک انٹرویو کے دوران کہی جب نریندر مودی سے پوچھا گیا تھا کہ کیا سرجیکل سٹرائکس کے مقاصد پورے ہوئے ہیں یا نہیں۔
خیال رہے کہ انڈیا نے ستمبر 2016 میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی سرزمین میں داخل ہو کر وہاں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس سے پہلے شدت پسندوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اُڑی کے فوجی کیمپ پر حملہ کیا تھا اور حکومت کے مطابق یہ کارروائی اس حملے کےجواب میں کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں!
نریندر مودی نے کہا کہ سرجیکل سٹرائکس کا فیصلہ ایک ’بڑا خطرہ‘ تھا لیکن وہ سیاسی خطرے کی فکر نہیں کرتے، انھیں صرف ان جوانوں کی جان کی فکر تھی جو اس آپریشن میں حصہ لے رہے تھے۔
’میں نے بالکل واضح ہدایت دی تھی کہ کامیابی ہو یا ناکامی، کمانڈوز کو سورج نکلنے سے پہلے واپس آجانا چاہیے۔۔۔‘

اڑیتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionستمبر 2016 میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر شمالی قصبے اڑی میں انڈین فوج کے ہیڈکوارٹر پر مسلح حملے میں 17 بھارتی فوجی مارے گئے تھے

نریندر مودی شاذ و نادر ہی انٹرویو دیتے ہیں اور اپنے ساڑھے چار سال کے دور اقتدار میں انھوں نےایک بھی پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کیا ہے۔ انھیں اس الزام کا بھی سامنا رہا ہے کہ انٹرویو صرف انھیں صحافیوں کو دیے جاتے ہیں جو انھیں چیلنج نہ کریں۔
سرجیکل سٹرائکس کے دعوے کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کی حکمت عملی، اس دعوے کی صداقت اور اس کی نیت پر سوال اٹھائے تھے۔
پاکستان نے بھارتی حکومت اور فوج کےدعوے کو بالکل بے بنیاد قرار دیا تھا۔
نریندر مودی نے کہا کہ ’پاکستان کے لیے تو انکار کرنا ضروری تھا لیکن ملک میں بھی کچھ لوگ وہی بات کر رہے تھے جو پاکستان کہہ رہا تھا اور یہ بات بہت افسوس ناک تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں نے پوری رات آپریشن کو مانیٹر کیا اور جب تک کمانڈو واپس نہیں آئے، میں فکرمند رہا۔۔۔‘
نریندر مودی نے کہا کہ کمانڈوز کی حفاظت کے پیش نظر سرحد پار کارروائی کی تاریخ دو مرتبہ بدلی گئی تھی اور انھیں سرجیکل سٹرائکس سے پہلے خصوصی تربیت فراہم کی گئی تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سرجیکل سٹرائکس کے جو مقاصد تھے کیا وہ حاصل ہوئے کیونکہ سرحد پار سے اب بھی حملوں اور دراندازی کا سلسلہ جاری ہے، تو انھوں نے کہا وہ اس بارے میں میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتے لیکن پھر کہا کہ ’سنہ 1965 میں بھی لڑائی ہوئی، تقسیم کے وقت بھی ہوئی، ایک لڑائی سے پاکستان سدھر جائے گا، یہ سوچنا بہت بڑی غلطی ہوگی، پاکستان کو سدھارنے میں ابھی اور وقت لگے گا ۔۔۔
’اڑی کے فوجی کیمپ پر حملے کے بعد میرے اورفوج کے اندر بہت غصہ تھا۔۔۔فوج اپنے جوانوں کی شہادت کا انتقام لینا چاہتی تھی، ان کےاندر مجھ سے بھی زیادہ آگ لگی ہوئی تھی، اس لیے فوج کو جوابی کارروائی کا منصوبہ بنانے اور اسے عملی شکل دینے کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔‘
نریندر مودی نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے اگر سارک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت آتی ہے ’تو یہ پل اسی وقت پار کیا جائے گا۔۔۔ ہم ہر موضوع پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ موضوع ہوگا اور یہ نہیں، کیونکہ ہمارا موقف بہت مضبوط ہے لیکن بس ہمارا کہنا یہ ہے کہ بم بندوق کی آواز میں بات چیت سنائی نہیں دیتی ہے۔‘

بابری مسجدتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionہندو رضاکاروں نے چھ دسمبر 1992 کو ایودھیا میں واقع تاریخی بابری مسجد کو مسمار کر دیا تھا

بابری مسجد

وزیر اعظم نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیرکے لیے قانون سازی کے مطالبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی قدم سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کےبعد ہی اٹھایا جاسکتا ہے۔
ان کے اس بیان سے یہ مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر عدالت کا فیصلہ ہندو فریقوں کے حق میں نہیں جاتا تو حکومت ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے آرڈیننس جاری کر سکتی ہے۔
بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم آر ایس ایس اور دوسری اتحادی جماعتوں کا الزام ہے کہ سپریم کورٹ تنازع کی سماعت میں تاخیر کر رہا ہے اور اب قانون بناکر مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کا وقت آگیا ہے۔
ہندو رضاکاروں نے چھ دسمبر 1992 کو ایودھیا میں واقع تاریخی بابری مسجد کو مسمار کر دیا تھا۔ وہ مانتے ہیں کہ یہ ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے اور وہ وہاں ایک عالی شان مندر بنانا چاہتے ہیں۔
لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں اور مسلمان فریقوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت سیاسی حکمت عملی کے طور پر پارلیمانی انتخابات سے پہلے رام مندر کا تنازع دوبارہ اٹھا رہی ہے اور اس کا مقصد اپنی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا اور لوگوں میں منافرت پیدا کرنا ہے۔
لیکن نریندر مودی نے کہا کہ رام مندر کا تنازع ’آئین کےدائرے‘ میں ہی حل کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمہ متنازع زمین کی ملکیت کے بارے میں ہے۔

No comments:

Post a Comment