Wednesday, 23 January 2019

LHR: KHADIJA SIDDIQUI A LAW STUDENT STABBED 23 TIMES IN PUBLIC.PROSECUTION WAS MANOUVERED.

ACTION RESEARCH FORUM: HEARING OF ADV KHADIJA SIDDIQUI STABBING CASE OF SUO MOTU WAS HEARED FINALLY BY SC BENCH OF COURT, THE JUDGMENT WAS RESTORED. INDEED. DOGRA RAJ IS OVER.   


Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46972790

خدیجہ صدیقی پر چھریوں کے وار کرنے والے مجرم کی سات سال کی سزا برقرار


خدیجہ صدیقیتصویر کے کاپی رائٹAFP

سپریم کورٹ نے قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر ان کے کلاس فیلو کی طرف سے چھریوں کے وار کرنے کے واقعے سے متعلق مقدمے میں مجرم شاہ حسین کو بری کرنے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مجرم کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے لاہور کے سیشن جج کا فیصلہ برقرار رکھا ہے جس میں ماتحت عدالت نے مجرم شاہ حسین کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔
عدالتی فیصلے کے بعد مجرم کو گرفتار کر کے تھانہ سیکرٹریٹ منتقل کردیا گیا ہے جہاں سے انھیں لاہور منتقل کردیا جائے گا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس واقعے سے متعلق سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی طرف سے لیے گئے از خود نوٹس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں ہی چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس مقدمے کا ملزم شاہ حسین کمرہ عدالت میں موجود ہے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم کمرہ عدالت میں موجود ہے۔
خدیجہ صدیقی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ماتحت عدالت کی طرف سے دیے گئے فیصلے میں ان شواہد کو مدنظر نہیں رکھا جس کی بنیاد پر ماتحت عدالت نے مجرم شاہ حسین کو قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اُنھوں نے کہا کہ عدالت عالیہ کی طرف سے اس سزا کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔

خدیجہ صدیقی

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہائیکورٹ کا نتیجہ شواہد سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔
خدیجہ صدیقی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مجرم شاہ حسین ان کی موکلہ کا کلاس فیلو تھا اور شاہ حسین نے خدیجہ پر خنجر کے 23 وار کیے تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجرم شاہ حسین خدیجہ صدیقی کا کلاس فیلو تھا لیکن اس کے باوجود ملزم کو پانچ دن کے بعد مقدمے میں نامزد کیا گیا۔
سماعت کے دوران شاہ حسین کے وکیل خالد رانجھا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کو مجرم قرار دینے کے لیے شواہد ناکافی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ وقوعہ کہ پانچ روز کے بعد مدعی کا ان کے موکل کو نامزد کرنا بدنیتی پر مبنی تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ جب خدیجہ کو ہسپتال لے جایا گیا تو اس وقت اُنھوں نے کہا تھا کہ ایک طالب علم نے ان پر حملہ کیا ہے جس پر خدیجہ صدیقی کے وکیل نے کہا کہ اس وقت خدیجہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھیں جس کی تصدیق ہسپتال میں موجود ڈاکٹروں نے بھی کی تھی۔
اس موقع پر مجرم شاہ حسین روسٹم پر آئے اور کہا کہ خدیجہ صدیقی کے ساتھ تعلقات تھے جو اُنھوں نے سات ماہ پہلے ہی ختم کر لیے تھے۔ اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ شادی سے انکار پر خدیجہ نے اُنھیں اس مقدمے میں نامزد کیا۔
خدیجہ صدیقی بھی روسٹم پر آئیں اور انھوں نے مجرم کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ شاہ حسین اُنھیں جذباتی طور پر بلیک میل کرنا چاہتے تھے۔
سماعت کے دوران عدالت نے وقوعہ سے متعلق ہونے والی تفتیش پر بھی سوالات اُٹھائے۔ سپریم کورٹ نے یہ سوال بھی اُٹھایا کہ پہلے جب ملزم کا نام ایف آئی آر میں نہیں تھا تو اس نے ضمانت قبل از وقت گرفتاری کیوں کرائی۔

خدیجہ صدیقیتصویر کے کاپی رائٹAFP

پنجاب حکومت نے ملزم شاہ حسین کی بریت کے فیصلے کی مخالفت کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں لاء کے سٹوڈنٹس تھے اور دونوں نے عملی طور پر قانون کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا جس پر کمرہ عدالت میں ایک زوردار قہقہ بلند ہوا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں ہائی پروفائل کا لفظ کئی مرتبہ استعمال ہوا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ جرم جرم ہوتا ہے ہائی پروفائل ہو یا لو پروفائل ہو اور قانون کی نظر میں تمام برابر ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عام طور پر لڑکی کے قتل کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ میری نہیں تو کسی کی نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ گولی مارنا آسان لیکن خنجر مارنا شدید اشتعال پر ہوتا ہے۔
عدالت نے اس مقدمے پر فیصلہ محفوظ کر لیا اور کچھ دیر کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مجرم شاہ حسین کو سیشن کورٹ کی طرف سے ملنے والی سزا کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
واضح رہے کہ مئی سنہ 2016 میں مجرم شاہ حسین نے خدیجہ صدیقی کو چھریوں کے وار کر کے شدید زخمی کردیا تھا۔ مجرم شاہ حسین لاہور کے ایک مشہور وکیل کے صاحبزادے ہیں۔
سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دورہ لندن کے دوران خدیجہ صدیقی نے اُن سے ملاقات کر کے ان سے اس مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

اسی بارے میں

No comments:

Post a Comment