ACTION RESEARCH FORUM, FOR AWARENESS AND ADVANCEMENT OF KNOWLEDGE ENGINEERING.
Source: https://www.bbc.co.uk/academy/ur/articles/art20130702112134654
مہمان: رہنما اصول
انٹرویو کی مختلف اقسام ہیں اور ان کے لیے کچھ بنیادی اصول نظر میں رکھنے ضروری ہیں- اس آرٹیکل میں انٹرویو کے دوران اپنے مہمان سے برتاؤ کے حوالے سے وضع کیے گئے سر رابن ڈے کے رہنما اصول درج ہیں-
سوال: مشکل اور سخت قسم کے انٹرویوز کے دوران آپ اپنے مہمان سے جائز برتاؤ کیسے روا رکھیں گے؟ انٹرویوز کی کئی اقسام ہیں اور ہرایک کے لیے آپ کو مختلف طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ایسے انٹرویوز جن میں کسی موضوع یا رائے پر بحث مقصود ہو یا پھر کسی الزام کی وضاحت، اکثر ان میں سخت اور کسی چیز پر مصر ہونا پڑتا ہے، کیونکہ آپ انٹرویو دینے والے کو اپنے ناظرین پر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
سر رابن کا قانون
تقریباَ َ پچاس برس قبل جب براڈکاسٹرز انٹرویوز کو دلچسپ منفرد بنانے کی کوششوں میں لگے تھے، ایک نوجوان رابن ڈے نے یہ دلیل پیش کی کہ:
’براڈکاسٹرز یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ عوام کی جانب سے مشکل اور تلخ سوالات کرسکتے ہیں؟‘
مگر سخت کا مطلب ہرگزغیر منصفانہ نہیں ہے۔
انیس سو اکسٹھ میں سر رابن نے ایک قانون وضع کیا جس میں تیز و تند ٹی وی میں اعتدال پیدا کرنے کی کوشش کی۔
یہ قانون ٹی وی کے صحافیوں کے لیے مقصود تھا مگر اس کا اطلاق کسی بھی براڈکاسٹ انٹرویو لینے والے پر کیا جاسکتا ہے۔ اس میں یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ انٹرویو لینے والا لازماً مرد ہی ہوگا، اس سلسلے میں سر رابن نے بعد میں اپنی سوانح عمری میں معافی بھی مانگی تھی۔
ان کا قانون تھا کہ:
- ٹی وی کے لیے انٹرویو لینے والے ایک شخص کو بہر صورت اپنا کام بحیثیت ایک صحافی کے سرانجام دینا چاہیے اور اسی حیثیت سے رائے اور حقائق کے بارے میں سوال کرے۔
- اسے ذاتی عصبیت کو بالائے طاق رکھ کر مختلف آرا کے حوالوں سے سوالات کرنے چاہیں۔
- کسی اہم ترین یا طاقتور شخص کی موجودگی کو اپنے اوپر اثرانداز نہیں ہونے دینا چاہیے۔
- اسے انٹرویو کی دیانت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے، جیسے دقیق موضوع سے روگردانی کرنا یا پہلے ہی سے سوالات میں تبدیلی کرنا۔
- اسے اپنے ادارے کے مالکان کی جانب سے انٹرویو دینے والے کی جانب جھکاؤ کی مخالفت کرنی چاہیے جو کسی اہم شخصیت کی خوشنودی کا سبب بنے یا جس سےانٹرویو کاعمل انٹرویو دینے والے کے لیے آسان ہو جائے اور اس کی شہرت میں اضافے کا سبب بنے۔ اگر احتجاج کے باوجود انٹرویو لینے والا یہ سمجھے کہ وہ ایمانداری سے اپنا کام نہیں کرپائے گا تو پھر اسے اس انٹرویو سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔
- اسے اپنے سوالات پہلے سے نہیں بتانے چاہیے، مگر سوالات کے موضوعات بتانے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ اگر اس نے اپنے مخصوص سوالات پہلے ہی سے بتا دیے تو پھر وہ مزید ضمنی سوالات نہیں کرپائے گا جو کسی جواب کو چیلنج کرنے یا اس کی وضاحت طلب کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
- اسے ٹی وی کے وقت کے حساب سے انٹرویو دینے والے کو جوابات دینے کا پورا موقع دینا چاہیے۔
- اسے اپنی پیشہ ورانہ تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی ایسے شخص کی تضحیک نہیں کرنی چاہیے جسے ٹی وی پر آنے کا تجربہ نہیں ہے۔
- اسے سوالات سخت و تند انداز میں پوچھنے چاہیں مگر سوالات کرتے ہوئے اس کا لہجہ ناگوار، جارحانہ نہیں ہونا چاہیے یا پھر صرف انداز سخت بنا کر پیش نہیں کرنا چاہیے۔
- اسے یاد رکھنا چاہیے کہ ٹی وی پر انٹرویو لینے والے کو بحث کرنے، تفتیش کرنے، مقدمہ لڑنے، ماہر نفسیات یا تھرڈ ڈگری کے ماہر کی حیثیت سے نہیں رکھا گیا، بلکہ ایک صحافی کی حیثیت سے رکھا گیا ہے جس کا کام ناظرین کی جانب سے معلومات طلب کرنا ہے۔
سر رابن کا یہ قانون جو انٹرویو کے طریقۂ کار کے دونوں پہلوؤں، انٹرویو کے دوران کا انداز اور انٹرویو سے پہلے تیاری کیسے کی جائے، سے متعلق ہے، زمانے سے چلا آ رہا ہے اور اس نے ایک اچھے انٹرویو کے رہنما اصولوں کو جامع انداز میں اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔
براڈکاسٹنگ کی تاریخ میں سر رابن کی شہرت ایک شاطر اور سخت ترین انٹرویو لینے والے کی ہے، مگر انہوں نے کبھی بھی دغا یا فریب کا سہارا نہیں لیا اور ہمیشہ سیدھا اور شفاف طریقہ اختیار کیا۔
بی بی سی کے اکثر ناظرین اور سامعین کہتے ہیں کہ اگر انہیں دورانِ انٹرویو یہ محسوس ہو کہ انٹرویو غیرمناسب انداز میں کیا جا رہا ہے تو وہ کوئی اور چینل لگا لیتے ہیں۔ انٹرویو کو پُراثر ہونا چاہیے، جب وہ یہ اثر کھو دیتا ہے تو ناظر اور سامع کی توجہ بھی بٹ جاتی ہے کیونکہ ان کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز ہوجاتی ہے کہ انٹرویو دینے والے سے کس طرح کا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔
بی بی سی کے کچھ ناقدین یہاں تک الزام لگاتے ہیں کہ کچھ انٹرویو لینے والوں کے حد سے زیادہ جارحانہ انداز نے سیاست کے طریقہ کار کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔
No comments:
Post a Comment