ACTION RESEARCH FORUM: A GREAT GIRL WITH COURAGE AND ZEAL AGAINST COMELIERS' WAY OF LIFE. EDUCATION REVOLT IS IMPACTING ON SAUDI SOCIETY BEYOND "WAHHABI" A CULT PREDOMINATED FOR ANTI-EMANCIPATION OF SONS AND DAUGHTERS OF EVE AND ADAM. ALMIGHTY OMNIPOTENCE IS NOT SLAVERY IN THE HANDS OF LUXURIOUS KINGS UNDER LABELS OF HARAMS, WHILE INTELLIGENCE AND WISDOM WASN'T BARRICADED BY FAITH AND GENDER. THE KORANIC VERSES DEDICATED FOR PROMOTION OF KNOWLEDGE, WHICH IS FOR HUMANITY.
WAHHABI LOCKED THEIR MIND LIKE AFGHANS, IRANIANS, SEE "SURAT BAQAR".
WISDOM IS ON EMANCIPATION.
AUDITED VERSION OF INCUMBENT IS PRESENTED HERE WHAT IS REAL TRUTH IS BEYOND PUBLIC MEANS AND IQ? WHERE THE INTELLIGENCE IS LOST, PERHAPS GONE WITH THE WIND CREATED NONSENSE OF CANADA, AUSTRALIA, EUROPE, AROUND INFIDELITY RECALL BRITISH RAJ.
SEE: MENSA PERTINENT TOO MEDIA STORY
Mensa meaning in Urdu: کلیسا قربان گاہ کا سب سے اونچا پتھر - kaleesa qurbaan gaah ka sab se ouncha pathar meaning, Definition Synonyms at English to ...
Source: https://www.bbc.com/urdu/world-46775044
رہف محمد القنون: ’سعودی خاتون کو پناہ گزین کا درجہ مل گیا‘
آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس 18 سالہ سعودی خاتون کو ’پناہ گزین‘ کا درجہ دے دیا ہے جس نے اپنے اہلخانہ کے پاس واپس جانے سے انکار کرتے ہوئے خود کو تھائی لینڈ میں ایک ہوٹل میں بند کر لیا تھا۔
رہف محمد القنون نے پیر کو بینکاک سے کویت کی پرواز پر سوار ہونے سے انکار کرتے ہوئے خود کو ہوائی اڈے کے قریب واقع ہوٹل کے کمرے میں بند کر لیا تھا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ اسلام ترک کر چکی ہیں، اور انھیں ڈر ہے کہ اگر انھیں زبردستی سعودی عرب واپس بھیج دیا گیا تو ان کا خاندان انھیں قتل کر دے گا۔ سعودی عرب میں ارتدادِ اسلام کی سزا موت ہے۔
رہف کے والد اور بھائی ان سے ملاقات کے لیے تھائی لینڈ پہنچے تھے تاہم انھوں نے ان سے بھی ملنے سے انکار کر دیا تھا اور بعدازاں تھائی لینڈ کی امیگریشن پولیس نے بتایا تھا کہ وہ 'اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیناں کی نگرانی میں ہوٹل سے چلی گئی ہیں'۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیناں نے رہف کا معاملہ اب آسٹریلوی حکام کے سپرد کیا ہے تاکہ انھیں ممکنہ طور پر وہاں بسایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے
آسٹریلیا کے امورِ داخلہ کے محکمے نے ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ وہ اس درخواست کا عام انداز میں جائزہ لے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت اس معاملے پر مزید تبصرہ نہیں کرے گی۔
تاہم آسٹریلوی حکام نے اس بات کے اشارے دیتے رہے ہیں کہ رہف کی درخواست قبول کی جا سکتی ہے۔
آسٹریلوی وزیرِ صحت گریگ ہنٹ نے اے بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر انھیں پناہ گزین کا درجہ مل جاتا ہے تو ہم انھیں انسانی بنیادوں پر ویزا دینے کے بارے میں انتہائی سنجیدگی سے غور کریں گے۔‘
رہف کی کہانی اس وقت منظر عام پر آئی جب انہوں نے ٹوئٹر پر اپنی تصویر اور نام شائع کرتے ہوئے لکھا کہ ’میرے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں اور اب میں اپنا اصل نام اور تمام معلومات عام کر رہی ہوں۔‘
اسی دوران ٹوئٹر پر ’سیو رہف‘( saverahaf #) کے نام سے ایک ٹرینڈ بھی شروع ہو گیا جس میں دنیا بھر سے لوگ رہف کی مدد کی اپیل کرتے رہے۔
ابتدا میں تھائی حکام انھیں کویت بھیجنے پر مصر رہے تاہم پھر تھائی لینڈ کی امیگریشن کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا کہ جان کو خطرے کے دعووں کے پیش نظر انھیں ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔
اس سے پہلے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے تھائی حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بنکاک ائیرپورٹ پر پھنسی سعودی خاتون کی طے شدہ منصوبے کے تحت سعودی عرب واپسی روک دیں۔
رہف نے روئٹرز کو بتایا: 'میرے بھائی، خاندان اور سعودی سفارت خانہ کویت میں میرا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ میری زندگی خطرے میں ہے۔ میرا خاندان معمولی باتوں پر بھی مجھے قتل کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔'
رہف نے کہا تھا کہ وہ اپنے خاندان سے الگ ہو کر آسٹریلیا جانا چاہتی تھیں لیکن تھائی لینڈ میں سعودی حکام نے ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا جو کہ اب انھیں واپس مل چکا ہے۔
رہف کے مطابق وہ اپنے خاندان کے ساتھ کویت گئی تھیں جہاں سے وہ دو دن پہلے اکیلی جہاز پر سوار ہو گئیں۔ وہ بنکاک سے آسٹریلیا جانا چاہتی تھیں جہاں ان کا ارادہ پناہ لینے کا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطیٰ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل پیج نے ایک بیان میں کہا کہ 'اپنے خاندان کو چھوڑنے والی سعودی خواتین کو ان کی مرضی کے بغیر واپس بھجوایا گیا تو وہ اپنے رشتے داروں کی جانب سے شدید تشدد، آزادی سے محرومی اور دیگر شدید نوعیت کے نقصان کا سامنا کر سکتی ہیں۔'
رہف نے کہا کہ ’میں نے اپنی معلومات اور تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کی ہیں اور میرے والد اس وجہ سے بہت غصے میں ہیں۔۔۔ میں اپنے ملک میں کام نہیں کر سکتی، پڑھ نہیں سکتی، اس لیے میں آزادی چاہتی ہوں اور اپنی مرضی سے پڑھنا اور کام کرنا چاہتی ہوں۔‘
یہ پہلا واقعہ نہیں
اس سے پہلے 2017 میں بھی ایک ایسا ہی کیس سامنے آیا تھا جب ایک سعودی خاتون نے فلپائن کے راستے آسٹریلیا جانے کی کوشش کی تھی۔
24 سالہ دینا علی بھی کویت سے روانہ ہوئی تھیں لیکن ان کے خاندان والے انھیں منیلا ایئرپورٹ سے واپس سعودی عرب لے گئے تھے۔ دینا نے ایک آسٹریلوی سیاح کے فون کے ذریعے ٹوئٹر پر ایک پیغام اور وڈیو جاری کی تھی کہ ان کے گھر والے انہیں قتل کر دیں گے۔
دینا علی کے ساتھ سعودی عرب پہنچ کر کیا ہوا یہ پھر معلوم نہیں ہوسکا تھا۔
No comments:
Post a Comment