ACTION RESEARCH THEFIRST COMMUNUICATION OF HPRIZON AT J. ALTEIMO AT MORE THAN 6 KILLOMETER DISTANCE FROM EARTH. GOOD LUCK.
Source: https://www.bbc.com/urdu/science-46713147
ناسا کے خلائی جہاز ’نیو ہورائزن‘ کا زمین سے رابطہs
Source: https://www.bbc.com/urdu/science-46713147
ناسا کے خلائی جہاز ’نیو ہورائزن‘ کا زمین سے رابطہs
ناسا کے خلائی جہاز ’نیو ہورائزن‘ کا زمین سے رابطہ
امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے خلائی جہاز 'نیو ہورائزن' نے پلوٹو کے نزدیک سیارچے 'الٹیما ٹولی' سے زمین کے ساتھ رابطہ کر کے اپنے کامیاب سفر کی تصدیق کر دی ہے۔۔
یہ سیارہ زمین سے ساڑھے چھ ارب کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اگر نئے افق اس کے پاس سے گزرا تو یہ نظامِ شمسی کا سب سے دور سیارہ یا سیارچہ ہو گا جس تک انسان کا بنایا ہوا کوئی خلائی جہاز پہنچنے میں کامیاب ہو گا۔
یہ فاصلہ اتنا دور ہے کہ وہاں سے زمین تک سگنل پہنچنے میں چھ گھنٹے آٹھ منٹ کا وقت لگا۔ واضح رہے کہ الٹیما ٹولی پلوٹو سے بھی مزید ڈیڑھ ارب کلو میٹر دور واقع ہے۔
'نیو ہورائزن' نے الٹیما کے مدار کے دوران اپنے کمپیوٹر میں سائنسی ڈیٹا اور تصاویر اکھٹی کی ہیں، جنھیں اب وہ آنے والے مہینوں میں یہاں بھیجے گا۔
اس خلائی جہاز سے موصول ہونے والا ریڈیو پیغام سپین کے شہر میڈرڈ میں نصب ناسا کے ایک بڑے اینٹینا نے وصول کیا۔
اس ابتدائی سگنل سے زمین پر موجود نگرانی کرنے والے سائنسدانوں کو اندازہ ہوگا کہ 'نیو ہورائزن' کی کارکردگی کیسی رہی اور اس نے سیارچے سے صرف 3500 کلومیٹر دور رہ کر کیسا کام کیا۔
مشاہدات مکمل کرنے کے بعد جہاز زمین پر لوٹ آئے گا اور اس کی میموری میں موجود تمام ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کیا جائے گا۔
امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سائنس دان اس لمحے پر انتہائی خوشی اور جوش کا اظہار کیا۔
مشن آپریشن مینیجر ایلس بومین نے سگنل موصول ہونے پر اعلان کیا: ’ہمارا خلائی جہاز ٹھیک ٹھاک ہے، ہم نے سب سے دور سفر مکمل کر لیا ہے۔‘
امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سائنس دان اس لمحے کے تصور میں پرجوش ہیں۔ نئے افق کے مرکزی تحقیقات کار پروفیسر ایلن سٹرن نے بتایا: 'تمام ٹیم پوری طرح تیار ہے۔ وہ سب بےصبری سے انتظار کر رہے ہیں۔'
اس سے پہلے 2015 میں نئے افق نے پلوٹو کے قریب سے گزر کر ساری دنیا کی توجہ حاصل کر لی تھی۔ الٹیما تک پہنچنے کے لیے اسے خلا میں مزید ڈیڑھ ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑا۔
الٹیما ٹولی صرف چار سال قبل دریافت ہوا تھا اور اس کے بارے میں سائنس دانوں کو بہت کم معلومات ہیں۔ دوربینی مشاہدات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا حجم 20 تا 30 کلومیٹر ہے۔ تاہم ایک امکان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایک کی بجائے دو سیارچے ہوں جو ساتھ ساتھ گردش کر رہے ہوں۔ منگل کو اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا۔
الٹیما ٹولی نظامِ شمسی کے اس حصے میں ہے جسے کائپر کی پٹی کہا جاتا ہے۔ اس دور افتادہ پٹی میں الٹیما کی طرح کے لاکھوں اجسام موجود ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان اجسام کے اندر 4.6 ارب سال قبل نظامِ شمسی کی تشکیل کے راز پوشیدہ ہیں۔
مشن سائنٹسٹ ڈاکٹر کیلسی سنگر نے کہا: 'ہم ایک دن پہلے ہی تمام آلات آن کر دیں گے۔ ہم سیاہ و سفید اور رنگین تصویریں لیں گے، اور ہم اس سیارچے کی تشکیل کے بارے میں ڈیٹا حاصل کریں گے۔ ہم نے اس قسم کا سیارچہ پہلے کبھی نہیں دیکھا اور یہ کہنا مشکل ہے کہ ہمیں کیا دیکھنے کو ملے گا، لیکن میں حیرت زدہ ہونے کے لیے تیار ہوں۔'
No comments:
Post a Comment