ACTION RESEARCH FORUM: SCIENTIST PREPARED DIET FOR HEALTH AND HAPPINESS.
Source: https://www.bbc.com/urdu/science-46901725
Source: https://www.bbc.com/urdu/science-46901725
وہ غذا جو انسانی جان اور ماحول دونوں کے لیے محفوظ ہے
ایک ایسی غذا تیار کر لی گئی ہے جو زندگیاں بچانے کی ضمانت دیتی ہے، جو دس ارب افراد کو میسر ہوگی اور جس کے ماحول کے لیے تباہ کن اثرات بھی نہیں ہیں۔
سائنسدان آنے والی دہائیوں میں مزید اربوں افراد کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس کا حل ہماری غذا سے دودھ اور گوشت کو مکمل طور پر نکالنا نہیں ہے، بلکہ اُس رویے میں بڑی تبدیلی لانا ہے جس کے تحت کہ ہم اپنے کھانے کی پلیٹیں بھرتے ہیں لیکن بہ مشکل ختم کر پاتے ہیں۔
غذا کے حوالے سے دیگر مضامین
ہمیں کیا تبدیلیاں لانا ہوں گیں؟
اگر آپ روزانہ گوشت کھاتے ہیں تو یہ پہلی بڑی بات ہے۔ گائے کے گوشت کا ہفتے میں ایک برگر یا مہینے میں ایک بڑا سٹیک آپ کے لیے بہت ہے۔
آپ اس کے ساتھ ہفتے میں ایک بار تھوڑی مچھلی اور مرغی بھی کھا سکتے ہیں، مگر آپ کو درکار پروٹین کا باقی حصہ سبزیوں سے پورا ہوگا۔
محققین روزانہ گری دار میوے، پھلیاں، سفید چنے اور دالیں استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
پھلوں اور سبزیوں کو بھی ہماری خوراک کا اہم حصہ ہونا چاہیے، البتہ آلو یا افریقہ میں کثرت سے کھائے جانے والے کساوا جیسی نشاستہ دار سبزیوں کے استعمال کی نفی کے جائے۔
متوازن غذا کی تفصیل کیا ہے؟
آپ کو ہر روز کیا اور کتنا کھانا چاہیے۔
- میوے: 50 گرام روزانہ
- پھلیاں،دالیں اور دیگر فلیان: 75 گرام روزانہ
- مچھلی: 28 گرام روزانہ
- انڈے: 13 گرام روزانہ
- گوشت: گائے کا گوشت 14 گرام، مرغی کا گوشت 29 گرام روزانہ
- کاربوہائڈریٹس: ثابت اناج مثلاً ڈبل روٹی اور چاول 232 گرام جبکہ نشاستہ دار سبزیاں 50 گرام روزانہ
- دودھ : 250 گرام یعنی ایک دودھ کے گلاس کے برابر
- سبزیاں 300 گرام اور پھل 200 گرام روزانہ
اس غذا میں 50 گرام تیل مثلاً زیتون کا تیل اور 31 گرام چینی کے استعمال کی گنجائش بھی ہے۔
کیا یہ بد ذائقہ ہو گی؟
ہارورڈ کے ایک محقق پروفیسر والٹر ولٹ کا کہنا ہے کہ یہ بلکل بد ذائقہ نہیں ہیں اور بچپن میں فارم پر خوراک میں روزانہ تین مرتبہ گائے کے گوشت کی عادت کے بعد اب وہ اس متوازن صحتمند غذا کے مطابق ڈھل چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس متوازن غذا میں مختلف قسم کی چیزیں ہیں جن کو ہزاروں مختلف اشیا کے ساتھ کھایا جا سکتا ہے، ہم یہاں غدائی محرومی کی بات نہیں کر رہے بلکہ اس صحتمند خوراک سے آپ لطف بھی اٹھا سکتے ہیں اور تنوع بھی لا سکتے ہیں۔‘
کیا یہ حقیقت میں ممکن ہے یا محض تصور؟
اس منصوبے کے تحت دنیا کے کم و بیش ہر کونے میں خوراک میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
یورپ اور امریکہ کو گائے کے گوشت میں بڑے پیمانے پر کمی لانے کی ضرورت ہے، مشرقی ایشیا کو مچھلی کے استعمال میں کٹوتی اور افریقہ کو نشاستہ دار سبزیوں کے استعمال میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔
سٹاک ھوم ریزیلینس سنٹر کی اسٹنٹ پروفیسر لائن گورڈن کا کہنا ہے کہ ’انسانیت نے کبھی اس رفتار اور پیمانے پر خوراک کے نظام میں تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی۔‘
وہ کہتی ہیں: ’چاہے یہ تصوراتی ہے یا نہیں مگر یہ تصور برا نہیں یہ اچھی دنیا کا خواب دیکھنے کا وقت ہے۔‘
گائے کے گوشت پر ٹیکس لگانا ان اقدامات میں سے ایک ہے جو محققین کی نظر میں ہمیں غذا میں تبدیلی لانے پر اکسا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے!
یہ کس کا خیال ہے؟
دنیا بھر سے 31 سائنسدانوں کو اکٹھا کیا گیا اور ایٹ لانسیٹ کمیشن لایا گیا۔ ان میں کھیتی باڑی، موسمیاتی تبدیلی اور غذائیت کے ماہرین شامل تھے اور انھوں نے دو سال کی تحقیق کے بعد لانسیٹ میں شائع ہونے والے نتائج اخذ کیے۔
ہمیں دس ارب افراد کے لیے خوراک کیوں چاہیے؟
دنیا کی کل آبادی سنہ 2011 میں سات ارب تھی اور اس وقت سات عشاریہ سات ارب کے لگ بھگ ہے اور توقع ہے کہ یہ تعداد 2050 تک دس ارب تک پہنچ جائے گی اور بڑھتی رہے گی۔
کیا یہ جانیں بچائے گی؟
محققین کا کہنا ہے کہ یہ غذا سالانہ تقریباً 11 ملین افراد کو مرنے سے بچائے گی۔
اس تعداد میں کمی کی وجہ غیر صحتمند غذا کے باعث ہونے والی بیماریوں جیسا کہ دل کے دورے، فالج اور سرطان کے مرض میں کمی واقع ہونا ہے۔ یہ امراض اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں اموات کی بڑی وجہ ہیں۔
کیا متوازن غذا زمین کو بچائے گی؟
محققین کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پانی کے ذخیرے اور کھیتی باڑی کے لیے زمین کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ جانوروں، حیاتیات کو معدومی سے بچانے اور موسمیاتی تبدیلی کرنے والی گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی لاتے ہوئے غذا مہیا کرنا ہے۔
البتہ ایسا کرنے کے لیے صرف غذا میں تبدیلی لانا کافی نہیں ہے۔ اس حوالے سے تعداد بڑھانے کے لیے ہمیں کھانے کے ضیاع کو آدھا کرنے کے ساتھ ساتھ کھیتوں سے حاصل ہونے والی خوراک کو بھی بڑھانا ہو گا۔
گوشت پر پابندی کیوں نہیں لگائی جا رہی؟
پروفیسر ولٹ کا کہنا تھا کہ اگر ہمارا مقصد صرف گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی لانا ہوتا تو ہم سب کو کہتے سبزی خور بن جائیں مگر ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ سبزی خوری ہی سب سے بہتر غذا ہے۔
اب کیا ہو گا؟
ایٹ لانسیٹ کمیشن اب اپنی تحقیق دنیا بھر میں حکومتوں اور اداروں جیسا کہ عالمی ادارہ صحت کے پاس لے کر جا رہا ہے تاکہ دیکھ سکے کہ اگر وہ ہماری غذائی عادات کو بدل سکتے ہیں۔
اسی بارے میں
- ایک قسم کی خوراک پر زندگی ممکن ہے؟
- غذائیت کا پاور ہاؤس جڑ والی سبزیاں
- غذائیت میں اضافے کے لیے آٹے میں فولک ایسڈ شامل کرنے کی سفارش
- سی ای ایس 2019: کیا سانس سونگھنے والے آلات آپ کی غذا بہتر بنا سکتے ہیں؟
- صحت کے لیے مضر کھانوں سے بچنے کے چار طریقے
- 'ڈاکٹروں کو غذائیت کے بارے میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا'
- ہم آلو کے چپس کھائے بغیر کیوں نہیں رہ سکتے؟
No comments:
Post a Comment