Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-44422571
آر ایس ایس کے 'ہندو راشٹر' میں جمہوریت کا بگل
ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے صدر دفتر کی تقریب میں سابق صدر مملکت اور کانگریس کے سب سے پرانے رہنما پرنب مکھرجی کی شرکت ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اس سے پہلے کسی بھی کانگریس رہنما نے آر ایس ایس کے صدر دفتر پر کسی تقریب میں شرکت نہیں کی تھی۔
تقریب کا آغاز ہندتوا کی علمبردار تنظیم کے بھگوا (گیروا) جھنڈے کی پرچم کشائی سے ہوا۔ آر ایس ایس کے رضاکاروں نے اپنی روایت کے مطابق قومی ترانے کے بجائے تنظیم کا ترانہ 'نممستے نمستے' گا کر تقریب کا باضابطہ آغاز کیا۔ اس ترانے میں ایک ہندو راشٹر کے قیام کا عزم کیا کیا گیا ہے۔
پرنب مکھرجی نے اپنی تقریر میں انڈیا کی طویل تاریخ اور اس کے تسلسل کا ذکر کیا۔ لیکن انھوں نے تاریخ کا ذکر چھٹی صدی سے کیا جو انڈیا میں قدیم 'نیشن سٹیٹ' یا رپبلک کنگڈم' کا دور مانا جاتا ہے۔ انھوں نے ماضی کے صرف ایک بادشاہ، شہنشاہ اشوک کا ذکر کیا جو ہندو نہیں بدھسٹ تھا اور جس کے دادا جین مذہب کے پیروکار تھے۔
یہ بھی پڑھیے
اشوک کو گوتم بدھ کے عدم تشدد کے فلسفے کا سب سے بڑا علمبردار تصور کیا جاتا ہے۔ پرنب مکھر جی نے کہا کہ تشدد اور نفرتوں سے قومیں آگے نہیں بڑھتیں۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا ایک کھلی تہذیب ہے اور اس قدیم تہذیب میں ہر کسی کی شراکت ہے۔
آر ایس ایس کا نصب العین ہندو سماج کا اتحاد اور ایک ہندو راشٹر کا قیام ہے۔ ایک ایسی مذہبی مملکت جس میں مسلم اور مسیحی حیسی مذہبی اقلیتیں دوسرے درجے کی شہری اور ہندوؤں کی تابع ہوں گی۔ آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا ہندو تنظیمیں اس مفروضے میں یقین رکھتی ہیں کہ باہر سے آنے والے مذاہب اور تصورات ان کے ہندو راشٹر کے تصور سے متصادم ہیں اور باہری مذاہب کے پیروکار کبھی بھی انڈیا کے وفادار نہیں ہو سکتے۔
گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس سے تھا۔ اس تنظیم پر ماضی میں کئی بار پابندیاں لگ چکی ہیں لیکن یہ وقت کے ساتھ آگے بڑھتی گئی۔ اس کے نظریے میں یقین رکھنے والوں کی تعداد بھی کافی بڑھ چکی ہے اور اس وقت آر ایس اپنے عروج پر ہے۔
یہ بھی پڑھیے
کانگریس ابتدا سے ہی اس کے خلاف تھی۔ پرنب مکھرجی کو آر ایس کی تقریب میں شرکت کرنا چاہیے تھا یا نہیں اس سوال پر ملک میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔ کئی لوگوں کو اس بات کی بھی شکایت ہے کہ پرنب نے اپنی تقریر میں گاندھی کے قتل کا ذکر نہیں کیا۔ انھوں نے آر ایس ایس کے ہندوؤں کے غلبے کے فلسفے پر تنقید نہیں کی۔
پرنب نے اپنی تقریر میں کہا کہ اختلافات کا احترام کرنا چاہئے ۔ اور اختلافات اور ٹکراؤ کو دور کرنے کا واحد راستہ ڈائیلاگ یا بات چیت ہے ۔ شاید اسی لیے انہوں نے آر ایس ایس کے نظریے سے شدید اختلاف کے باوجود اس کی تقریب میں شرکت کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے آر ایس کے ہندو توا کے پرچم اور ہندو راشٹر کے قیام کے ترانے کے درمیان تمام مزاہب اور تمام طبقوں کی جمہوریت کا ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا سبھی کا ہے اور یہ تہزیب مختلف ثقافتوں کا سنگم ہے ۔ انہوں کہا کہ رواداری اور مزہبی ، لسانی اور نسلی رنگا رنگی انڈیا کی روح ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
پرنب نے آر ایس ایس کے مرکز پر جا کر انھیں جمہوریت اور رواداری اور مزاکرات کا سبق یاد دلایا ہے۔ آر ایس ایس کو شاید اس کی توقع نہیں رہی ہوگی۔ لیکن وہ ایک گہری نظریاتی تنظیم ہے۔ وہ اپنے ہندو راشٹر کے نصب العین پراٹل ہے۔ یہ جمہوریت اور مذہبی مملکت کے تصور کا ٹکرا ؤ ہے۔
انڈیا کی تہذیب نے تاریخ میں بہت سے مشکل ادوار دیکھے ہیں۔ دور قدیم سے یہ غیر ملکی حملہ آوروں، لٹیروں اور مہم جویوں کے حملوں کا نشانہ بنتی رہی۔ کئی مرحلوں پر اسے اپنے ظالم حکمرانوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن کوئی بھی اس قدیم تہذیب کے تسلسل کو منتشر نہ سکا۔ یہ تہذیب رواداری، بحث و مباحثے، نئے تصورات، نئے مذاہب اور باہمی احترام کی اقدار کے ساتھ گامزن رہی۔
انڈیا کی تہذیب کو ایک بار پھر دشوار گزار راہوں کا سامنا ہے۔ ملک کی رواداری، ہم آہنگی اور تقافتی و مذہبی رنگا رنگی اور جمہوری اقدار ہندوتوا کے فلسفے سے متصادم ہیں۔ سیاسی فلسفے کی یہ نظریاتی کشمکش معاشرے میں انتشار اور بے چینی پیدا کر رہی ہے۔
تاریخ کی اس منزل پر انڈیا ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں سیاسی نظریے کی یہ جنگ انڈیا کو جمہوریت کے راستے سے ہٹا کر اکثریتی مذہبی مملکت کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
ماضی میں جب بھی انڈیا میں اس طرح کا ٹکراؤ ہوا ہمیشہ مثبت تصورات غالب رہے۔ تاریخ کی اس منزل پر شاید یہ بھی ایک ایسا ہی مرحلہ ثابت ہو اور ہزاروں سال کی تہذیب کا یہ تسلسل نئی سوچ، نئے تصورات اور نئی انسانی قدروں کے ساتھ یونہی قائم رہے۔
No comments:
Post a Comment