Sunday 20 May 2018

ABOUT TERRORISM CONSPIRACY VENUE (BBC) Posted on April 27, 2011


ORIGINAL Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/04/27/about-terrorism-conspiracy-venue-bbc/


ABOUT TERRORISM CONSPIRACY VENUE (BBC)

ABOUT TERRORISM CONSPIRACY VENUE
(Posted on April 27, 2011)
This is for Action Research Forum rendering service for promotion of knowledge for better judgment.
’دہشتگردی گھر کا معاملہ‘
ٹریول ایجنسی چلانے والے سیف اللہ پراچہ خلیج گوانتانامو میں قید ایک سو بہتر قیدیوں میں سب سے پرانے قیدی ہیں۔
ان کی تفتیش پر مشتمل دستاویز میں سب سے زیادہ حیران کن اور ششدر کر دینے والے معلومات دی گئی ہیں۔
گوانتامو کے قیدیوں کے بیانات سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق گیارہ ستمبر سنہ دو ہزار ایک میں امریکہ میں طیاروں کی ہائی جیکنگ اور ان کے ذریعے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر حملوں کے بعد سیف اللہ پراچہ دہشت گردی کی کوئی واردات کرنے کے امکانات کا جائزہ لتیے رہے تھے۔ یہ بیانات امریکی جریدے نیویارک ٹائمز اور برطانوی اخبار دی گارڈین نے شائع کیے ہیں۔
گیارہ ستبمر سنہ دو ہزار ایک کے مرکزی منصوبہ ساز خالد شیخ محمد نے سیف اللہ پراچہ کو پانچ سے چھ لاکھ ڈالر کی رقم امانت کے طور پر دی تھی۔
سیف اللہ پراچہ نے خالد شیخ محمد کو بین الاقوامی جہاز رانی کے ذریعے ہونے والی تجارت میں اپنے طویل تجربہ کی بنیاد پر امریکہ میں عورتوں اور بچوں کے کپڑوں میں چھپا کر دھماکہ خیز مواد امریکہ اسمگل کرنے میں اپنی خدمات کی پیش کش کی تھی
ایک اور قیدی عامر البلوچی نے گوانتامو میں تفتیش کاروں کو بتایا کہ سیف اللہ پراچہ چاہتے تھے کہ القاعدہ امریکہ کے خلاف کوئی بڑی واردات کرے۔
ان فائلوں کے مطابق پراچہ جوہری اور کیمیائی ہتھیار حاصل کرنے کے بارے میں بات چیت کرتے رہے تھے۔ لیکن انھیں خدشہ تھا کہ تابکاری مواد کی امریکہ سمگلنگ امریکی بندرگاہوں پر موجود آلات کی وجہ سے بہت مشکل ہے۔
پراچہ القاعدہ کے دیگر ارکان سے دہشت گردی کے جن منصوبوں پر بات چیت کرتے رہے ان میں امریکہ کے مغربی ساحل پر مسافر برادر طیاروں کے حملے، کسی رہائشی اپارٹمنٹ میں گیس بھر کر اسے اڑا دینے یا کسی گیس سٹیشن کو اڑانے یا نیویارک کے بروکلین بریج کے فولادی رسے کاٹنے کی وارداتیں شامل تھیں۔ لیکن ان میں کسی بھی منصوبے پر عمل نہیں کیا جا سکا۔
دسمبر دو ہزار آٹھ میں القاعدہ کے ایک چھوٹے سے گروہ کے ارکان سے تفتیش کی دستاویز سے لگتا تھا جیسے دہشت گردی ان کے گھر کا معاملہ ہو۔ اس گروہ کا سرغنہ محمد نامی شخص تھا جس کے بھتیجے بلوچی کی بیوی ایک اور شدت پسند کی بیٹی تھی۔ اس گروہ میں عافیہ صدیقی بھی تھیں اور پھر سیف اللہ پراچہ اور ان کا بیٹا اعزیر تھے۔
سیف اللہ پراچہ نے انیس سو ستر میں نیو یارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں تعلیم حاصل کی اور پھر تیرہ برس تک نیو یارک میں ٹریول ایجنٹ کا کام کرتے رہے۔
وہ جولائی سنہ دو ہزار تین میں بینکاک سے گرفتار ہوئے۔ اس سے قبل ان کے بیٹے کو ایف بی آئی گرفتار کر چکی تھی اور انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ ان کے والد بھی شدت پسند ہیں۔ اعزیر پراچہ کو سنہ دو ہزار پانچ میں سزا سنائی گئی اور ایک وفاقی جیل میں تیس سال کی سزا بھگت رہے ہیں۔
گوانتامو کی فائلوں کے مطابق سیف اللہ پراچہ نے القاعدہ کے ارکان کے بارے میں بڑی اہم معلومات فراہم کئیں لیکن اپنے بارے میں غلط اور جھوٹے بیانات دیتے رہے۔
پراچہ نے القاعدہ کے سرکردہ رہنما سے اپنے تعلقات کا اعتراف کیا اور بتایا کہ وہ دسمبرسنہ انیس سو ننانوے اور جنوری سنہ دو ہزار میں افغانستان میں اسامہ بن لادن سے مل چکے ہیں۔
انہوں نے اسامہ کو پاکستان میں اپنے نشریاتی بزنس پر القاعدہ کے پراپگنڈہ کرنے کی پیش کش کی۔
لیکن گیارہ ستمبر کے بعد ان کی توجہ دہشت گردی کے نئے منصوبور پر مرکوز ہو گئی اور گرفتاری کے وقت ان کی ڈجیٹل ڈائری میں کیمیائی جنگ اور ان کے انسانوں پر اثرات کے بارے میں معلومات درج تھیں۔
ان دستاویزات میں کہا گیا کہ وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی ڈاکٹر قدیر خان کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں۔
Advertisements

No comments:

Post a Comment