ORIGINAL Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/06/09/indian-held-kashmir-%E2%80%93-protest-or-seek-justice/
INDIAN HELD KASHMIR – PROTESTORS SEEK JUSTICE
INDIAN HELD KASHMIR – PROTESTORS SEEK JUSTICE
(June 10, 2011)
(June 10, 2011)
This is for Action Research Forum rendering services for promotion of knowledge
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2011/06/110608_kashmir_justice_police_sz.shtml
13:54 GMT 18:54 PST آخری وقت اشاعت: بدھ 8 جون 2011
ریاض مسرور
بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، سرینگر
13:54 GMT 18:54 PST آخری وقت اشاعت: بدھ 8 جون 2011
ریاض مسرور
بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، سرینگر
سرینگر کے ایک آسودہ حال تاجر محمد اشرف مّتو کا سترہ سالہ اکلوتا بیٹا طفیل متو پچھلے سال جون میں سکیورٹی فورسز کی کاروائی میں کلِک ہلاک ہوا تو انہوں نے انصاف کی تلاش میں اپنی تجارت چھوڑ دی۔
سرینگر کے سعیدہ کدل علاقہ کی ایک خاموش بستی میں رہنے والے اشرف متو کہتے ہیں ’جو آگ کشمیر میں لگی تھی، اس کے لیے میرے طفیل کی ہلاکت ذمہ دار ہے، جب تک ان ننھے بچوں کے قاتل آزاد ہیں، یہاں امن کیسے قائم ہوگا۔میں احتجاج نہیں کرونگا، لیکن انصاف کی جنگ جاری رہے گی۔‘
طفیل کے والد اپنی اکلوتی اولاد کے قاتلوں کو سزا دلوانے کے لیے ایک سال سے سرگرم ہیں اور انہوں نے اپنی تجارتی سرگرمیاں معطل کردی ہیں۔ وہ ان تمام والدین کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں جن کے بچے پچھلے سال مظاہرین پر پولیس یا نیم فوجی دستوں کی فائرنگ میں مارے گئے تھے۔
پچھلے سال مئی میں جب یہ انکشاف ہوا کہ شمالی کشمیر میں نادی ہل گاؤں کے تین مزدوروں کو اغوا کرکے فوج نے فرضی جھڑپ میں ہلاک کردیا تو وادی میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
پچھلے سال گیارہ جون کو سرینگر میں سیکورٹی پابندیاں نافذ تھیں۔ اشرف متو بتاتے ہیں کہ طفیل سکول سے براہ راست رعناواری کی طرف ٹیوشن کے لیے گیا تو وہاں غنی میموریل سٹیڈیم کے باہر اس پر پولیس اہلکاروں نے اشک آور گیس کا گولہ داغا جو اس کے سر میں جا لگا۔
طفیل کا دماغ سڑک پر بکھر گیا۔ اس کی لاش کو آبائی قبرستان میں دفنایا گیا لیکن رعناواری کے لوگوں نے اس کے دماغ کے حصے جمع کر کے انہیں مقامی بستی کے قبرستان میں دفن کیا۔
پرانے سرینگر کی کئی بستیوں کے باشندوں نے اجتماعی طور پر غنی میموریل سٹیڈیم کے پاس ایک یادگاری دیوار تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پچپن سالہ اشرف متو کہتے ہیں ’ایک سال میں درجن بھر سماعتیں ہوئیں۔ حکومت نے کئی بیانات بدلے، اب عدالت نے حکومت کو سولہ جون تک کا وقت دیا ہے۔، ان کا کہنا ہے کہ وہ عدالت پر بھروسہ کرتے ہیں لیکن اگر یہاں انصاف نہ ملا تو وہ عالمی اداروں سے رجوع کریں گے۔
’پہلے پہلے مجھے کچھ لوگ ملنے آئے۔ انہوں نے کہا پیسا لے لو ، پروپگینڈا مت کرو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیا ایکشن لے گی۔ بعد میں مجھے دھمکیاں بھی ملیں، لیکن میں آخری دم تک انصاف کی یہ جنگ لڑوں گا، اور مجھے یقین ہے کہ میں جیت جاؤں گا۔‘
گیارہ جون دو ہزار دس کو پیش آنے والے اس واقعے نے وادی بھر میں احتجاجی لہر بھڑکا دی اور قریب پانچ ماہ تک چلنے والے مظاہروں کی تحریک میں سو سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ ان میں سے بیشتر کم سن بچے تھے۔
مسٹر اشرف ممبئی، دلّی اور یورپ میں کشمیری دستکاریوں کا کاروبار کرتے تھے لیکن اولاد کھونے کے بعد تجارت انہوں نے چھوڑ دی ہے ’میری زندگی کا مقصد تھا کہ میرے بڑھاپے کا واحد سہارا طفیل ڈاکڑ بنے، لیکن وہ ظلم اور ناانصافی کا شکار ہوا، اب تو میری زندگی کا مقصد ہی بدل گیا ہے۔ میں انصاف لے کر ہی رہوں گا۔‘
گو کہ علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی نے گیارہ جون کو وادی بھر میں ہڑتال کی اپیل کی ہے، متو خاندان اور ان کے ہمدردوں نے ایک متوازی پروگرام دیا ہے جس کے تحت طفیل کی یاد میں قرآن خوانی کی محفل، سیمینار اور دس جون کو ’یوم سیاہ‘ منانے کی اپیل کی گئی ہے۔
اشرف متو کہتے ہیں’جب میں نے حکومت کے جھوٹ کو ایکسپوز کیا تو کہا گیا کہ میری پشت پر علیحدگی پسند طاقتیں ہیں۔ میری پشت پر تو اللہ ہے۔ مجھے کسی بھی قسم کی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘
Advertisements
No comments:
Post a Comment