ORIGINAL Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/05/25/qadeer-atomic-dealings-were-in-legal-framework/
QADEER ATOMIC DEALINGS WERE IN LEGAL FRAMEWORK
QADEER ATOMIC DEALINGS WERE IN LEGAL FRAMEWORK
(May 25, 2011)
(May 25, 2011)
This is for Action Research Forum rendering services for promotion of knowledge
13:05 GMT 18:05 PST, بدھ 25 مئ 2011
آصف فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کے معتوب ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ترقی کے دوران کسی غیر ملکی کمپنی کے ساتھ ان کے لین دین کو غیر قانونی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ پاکستان پر ایٹمی اور میزائل پرزوں کی خرید و فروخت کے بارے میں کوئی بین الاقوامی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا۔
اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ سے ٹیلی فون پر بی بی سی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان جوہری مواد کے پھیلاؤ سے متعلق کسی بھی بین الاقوامی قانون یا معاہدے میں فریق نہیں ہے لہذا ایٹمی پروگرام کے لیے پاکستان کی بین الاقوامی مارکیٹ سے خریداری کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سنہ دو ہزار چار میں ایٹمی معلومات کی لیبیا اور بعض دیگر ممالک کو فروخت کے الزام کے بعد پانچ سال تک نظر بندی کی زندگی گزارنے والے ڈاکٹر قدیر اب بظاہر آزاد ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ وہ کسی اخباری نمائندے کو باضابطہ انٹرویو دینے کے مجاز نہیں ہیں۔
تاہم گزشتہ روز وکی لیکس کے ذریعے پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں پر اپنے تبصرے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ گفتگو وہ ذمہ داری سے کر رہے ہیں اور اسے ان کے نام سے شائع کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ’غیر قانونی‘ کی اصطلاح بہت عرصے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی جب جنرل ضیا الحق کے دور میں اس منصوبے پر کام کی رفتار میں تیزی لائی گئی تھی۔
ڈاکٹر خان نے کہا کہ جنرل ضیا نے اپنے وزیر خارجہ اور دیگر افسران کو حکم دے رکھا تھا کہ چونکہ پاکستان نے ایٹمی مواد کے پھیلاؤ کو روکنے کے کسی معاہدے پر دستخط نہیں کیے لہذا اس بارے میں ان سے جب بھی کوئی غیر ملکی شخصیت کوئی بات کرے تو انہیں یہی جواب دیا جائے۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی کے مطابق یہی جواب آج بھی اتنا ہی درست ہے۔
’ہم نے جب کوئی معاہدہ کیا ہی نہیں تو اس تجارت کے غیر قانونی ہونے کا سوال کیسے پیدا ہوتا ہے۔ ہم بین الاقوامی مارکیٹ سے سامان خریدتے رہے ہیں اور اسے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایسا مواد نہ خریدنے کی شق تو ان ملکوں اور ان کی کمپنیوں پر لاگو ہو گی جنہوں نے ان معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں‘۔
وکی لیکس کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں میں پاکستان کے’غیر قانونی‘ طرز عمل کے علاوہ ڈاکٹر خان کے موجودہ حکومت کے ساتھ اپنی رہائی کے بدلے ایک تحریری معاہدے کا بھی ذکر ہے۔
ان خبروں کے مطابق دو سال قبل پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر نے ایک تحریری معاہدہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ان کی رہائی ممکن ہوئی۔ اس معاہدے کی نقل وکی لیکس کے توسط سے اخبارات میں شائع بھی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر قدیر نے ایسے کسی معاہدے کی موجودگی سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وکی لیکس کی جانب سے جاری ہونے والے معاہدے کا عکس انہوں نے دیکھا ہے اور انہوں نے کبھی اس دستاویز پر دستخط نہیں کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے عدالت کے ایک حکم کے ذریعے رہائی ملی تھی اور اس کے لیے میں نے حکومت کے کسی اہلکار کے ساتھ معاہدہ نہیں کیا‘۔
ڈاکٹر قدیر نے وضاحت کرتے بتایا کہ اس ’نام نہاد‘ معاہدے کے بارے میں انہیں اس وقت پتہ چلا جب اسلام آباد کی ہائیکورٹ نے ان کی رہائی کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں اس معاہدے کا ذکر تھا اور اس کی نقل بھی فیصلے کے ساتھ نتھی تھی۔
ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ انہوں نے اس ’جعلی‘ معاہدے کو لاھور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا اور اس کا فیصلہ ان کے حق میں آ چکا ہے لہذا عملاً اور اصولاً اس معاہدے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
سنہ دو ہزار چار میں ایٹمی معلومات کی لیبیا اور بعض دیگر ممالک کو فروخت کے الزام کے بعد پانچ سال تک نظر بندی کی زندگی گزارنے والے ڈاکٹر قدیر اب بظاہر آزاد ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ وہ کسی اخباری نمائندے کو باضابطہ انٹرویو دینے کے مجاز نہیں ہیں۔
تاہم گزشتہ روز وکی لیکس کے ذریعے پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں پر اپنے تبصرے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ گفتگو وہ ذمہ داری سے کر رہے ہیں اور اسے ان کے نام سے شائع کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ’غیر قانونی‘ کی اصطلاح بہت عرصے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی جب جنرل ضیا الحق کے دور میں اس منصوبے پر کام کی رفتار میں تیزی لائی گئی تھی۔
ڈاکٹر خان نے کہا کہ جنرل ضیا نے اپنے وزیر خارجہ اور دیگر افسران کو حکم دے رکھا تھا کہ چونکہ پاکستان نے ایٹمی مواد کے پھیلاؤ کو روکنے کے کسی معاہدے پر دستخط نہیں کیے لہذا اس بارے میں ان سے جب بھی کوئی غیر ملکی شخصیت کوئی بات کرے تو انہیں یہی جواب دیا جائے۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی کے مطابق یہی جواب آج بھی اتنا ہی درست ہے۔
’ہم نے جب کوئی معاہدہ کیا ہی نہیں تو اس تجارت کے غیر قانونی ہونے کا سوال کیسے پیدا ہوتا ہے۔ ہم بین الاقوامی مارکیٹ سے سامان خریدتے رہے ہیں اور اسے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایسا مواد نہ خریدنے کی شق تو ان ملکوں اور ان کی کمپنیوں پر لاگو ہو گی جنہوں نے ان معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں‘۔
وکی لیکس کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں میں پاکستان کے’غیر قانونی‘ طرز عمل کے علاوہ ڈاکٹر خان کے موجودہ حکومت کے ساتھ اپنی رہائی کے بدلے ایک تحریری معاہدے کا بھی ذکر ہے۔
ان خبروں کے مطابق دو سال قبل پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر نے ایک تحریری معاہدہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ان کی رہائی ممکن ہوئی۔ اس معاہدے کی نقل وکی لیکس کے توسط سے اخبارات میں شائع بھی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر قدیر نے ایسے کسی معاہدے کی موجودگی سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وکی لیکس کی جانب سے جاری ہونے والے معاہدے کا عکس انہوں نے دیکھا ہے اور انہوں نے کبھی اس دستاویز پر دستخط نہیں کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے عدالت کے ایک حکم کے ذریعے رہائی ملی تھی اور اس کے لیے میں نے حکومت کے کسی اہلکار کے ساتھ معاہدہ نہیں کیا‘۔
ڈاکٹر قدیر نے وضاحت کرتے بتایا کہ اس ’نام نہاد‘ معاہدے کے بارے میں انہیں اس وقت پتہ چلا جب اسلام آباد کی ہائیکورٹ نے ان کی رہائی کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں اس معاہدے کا ذکر تھا اور اس کی نقل بھی فیصلے کے ساتھ نتھی تھی۔
ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ انہوں نے اس ’جعلی‘ معاہدے کو لاھور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا اور اس کا فیصلہ ان کے حق میں آ چکا ہے لہذا عملاً اور اصولاً اس معاہدے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
Advertisements
No comments:
Post a Comment