Thursday 31 May 2018

WAR CRIMES ALLEGATION ON BENGALIS Posted on June 19, 2011


ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/06/19/war-crimes-allegation-on-west-pakistanis-bengalis/


WAR CRIMES ALLEGATION ON BENGALIS

WAR CRIMES ALLEGATION ON BENGALIS
(June 19, 2011)
بنگالیوں پر جنگی جرائم کے الزامات
16:00 GMT 21:00 PST, 2011 جمعـء 17 جون
چالیس سال قبل ایک مختصر مگر پر تشدد خانہ جنگی کے بعد پاکستان سے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش ایک آزاد ملک بنا۔
اس خانہ جنگی میں ممکنہ طور پر اندازاً تیس لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔
بی بی سی کے نامہ نگار ایلسٹیئر لاسن کے مطابق بنگلہ دیش کی آزادی کی مناسبت سے سامنے آنے والی ایک نئی کتاب میں اس واقعے کے حوالے سے شدید متنازعہ نتائج پیش کیے گئے ہیں۔
شرمیلا بوس کی کتاب ’ ڈیڈ ریکننگ‘ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں ہوئی سب سے خونی جنگوں میں ایک کی داستان صرف فاتح فریق کی جانب سے بیان کی گئی ہے جو کہ سنہ انیس سو اکہتر میں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے والے بنگلہ دیشی قوم پرست ہیں۔
مصنفہ نے لکھا ہے کہ ’اس لڑائی کے فریقین اب بھی جنگ کی مخالفانہ اساطیر میں قید ہیں‘۔
کتاب کے تعارف میں انہوں بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے کی گئی خونی جدوجہد کے دوران پاکستانی فوج کو قتل کے واقعات سے بری الزمہ قرار نہیں دیا لیکن اس کتاب کے حوالے سے بنگلہ دیش میں جس چیز کو سب سے زیادہ متنازعہ مانا جائے گا وہ یہ ہے کہ اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ آزادی کے حق میں اور اس کے خلاف لڑنے والے بنگالیوں نے بھی ’قابلِ نفرت مظالم ڈھائے‘۔
اس کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر بوس آکسفرڈ یونیورسٹی میں ایک سینئیر تحقیق کار ہیں اور انہوں نے ماضی میں بی بی سی کے لیے بھی کام کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آزادی کے لیے لڑنے والوں نے پاکستانی فوج کا تاثر کسی’خوفناک بلا‘ جیسا بنا دیا اور اس پر ’خوفناک الزامات عائد کیے جن کے کوئی ثبوت بھی نہیں تھے‘ جبکہ بنگالیوں کو ’مظلوم‘ ظاہر کیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے’علیحدگی پسند بنگالیوں کی جانب سے کیے گئے تشدد اور مظالم کی نہ صرف نفی کی گئی اور ان کی شدت کم دکھائی گئی بلکہ انہیں صحیح بھی قرار دیا گیا‘۔
بنگلہ دیش اور بیرونِ ملک مقیم بنگالی دانشور پہلے ہی اس کتاب پر تنقید کر رہے ہیں۔ امریکہ میں مقیم بنگلہ دیشی مصنف نعیم مہیمن نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کتاب کی مصنفہ نےیہ کہہ کر کہ جنگ دو برابر کے ظالم فریقین میں لڑی گئی اور پاکستانی فوج نے صرف ضروری اور معتدل انداز میں جوابی کاروائی کی، ’اپنے من گھڑت نتائج کو انتہا پر پہنچانے کی غلطی کی ہے۔
نعیم مہیمن نے کہا کہ ’مصنفہ نے انیس سو اکہتر کے پیچیدہ مسائل کو دوبارہ اجاگر کرنے کے لیے ناکافی تجسس کا مظاہرہ کیا۔ یعنی یہ ہلاکتیں کیوں شروع ہوئیں، پاکستانی کی حکومت نے کیونکہ ا س قدر ظالمانہ رویے کا مظاہرہ کیا اور بنگالیوں نے کیونکہ اتنا پر تشدد ردِعمل دیا‘۔
تاہم یہ کسی مغربی مصنف کی جانب سے اس جنگ سے متعلق لکھی جانی والی یہ پہلی کتاب ہے جس میں حالات کا آزادانہ طور پرجائزہ لیا گیا۔
کسی مغربی مصنف کی جانب سے اس جنگ سے متعلق لکھی جانی والی کم و بیش یہ پہلی کتاب ہے جس میں حالات کا آزادانہ طور پرجائزہ لیا گیا۔
اس کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر بوس نے یہ کتاب لکھنے سے قبل اس جنگ سے متعلق شائع دستاویزی مواد کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے دوردراز علاقوں میں جا کر معمر دیہاتیوں کے انٹرویوز کیے۔ اس کے بعد انہوں نے پاکستان کا بھی سفر کیا اور کئی ریٹائرڈ فوجی افسران سے سوالات کیے۔
دھچکا پہنچاے والی حیوانئت
ا کتاب کے مطابق بنگالی قوم پرستوں کی بغاوت، مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کے خلاف ناقابلِ برداشت تشدد میں تبدیل ہوگئی۔ خاص طور پر مغربی پاکستان کے شہریوں اور ان میں بھی زیادہ تر اردو زبان بولنے والوں کو نشانہ بنایا گیا جو تقیسمِ ہند کے وقت بھارت سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آئے تھے اور انہیں بہاری کہا جاتا تھا۔
ڈاکٹر بوس کا کہنا ہے کہ ’ بنگالی قوم پرستی کے نام پر ہونے والے اس نسلی تشدد میں غیر بنگالی مرد، عورتوں اور بچوں کا قتلِ عام کیاگیا‘۔ ان کے مطابق یہ ہلاکتیں چٹاگانگ، کھلنا، سانتاہر اور جیسور میں جنگ کے دوران اور اس کے دس ماہ بعد تک ہوتی رہیں۔
مصنفہ لکھتی ہیں کہ ’نسل پرست قتلِ عام کا شکار ہونے والے غیر بنگالیوں کو سینکڑوں اور بعض واقعات میں ہزاروں کی تعداد میں ہلاک کیا گیا۔۔۔ مرد عورتوں اور بچوں کو نسل پرستی کی بنیاد پر قتلِ عام کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں انتہائی المناک حیوانیت سے قتل کیاگیا‘۔
ڈاکٹر بوس کہتی ہیں کہ بعض بدترین ظلم تو بنگالیوں نے اپنے ہی لوگوں پر کیے اور یہ مظالم پاکستان کے اتحاد کا دفاع کرنے والوں اور بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے لڑنے والوں نے ایک دوسرے پر کیے
ان کا کہنا ہے کہ ’جنگ کے آخری دنوں میں حکومت کے حامیوں کے ہاتھوں آزادی کے حامیوں کی ہلاکتیں اس لڑائی کے دوران کیا جانے والا بدترین جرم تھا۔ تاہم ظالمانہ کارروائیاں اور مختلف سیاسی طرز فکر رکھنے والوں کو راستے سے ہٹانا قوم پرست بنگالیوں کی بھی خاصہ رہا ہے‘۔
ڈاکٹر بوس کہتی ہیں کہ ’اس چیز کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ غیر بنگالی بنگالیوں کے نسل پرستانہ تشدد کا نشانہ بنے‘۔
وہ لکھتی ہیں کہ ’جب پاکستانی فوج بنگالی مردوں کو نشانہ بنانے کے لیے وہاں آئی تو زمین لاشوں سے بھری پڑی تھی اور دریا میں لاشوں کی وجہ سے پانی رک گیا تھا اور یہ ان غیر بنگالیوں کی لاشیں تھیں جنہیں بنگالی باغیوں نے ہلاک کیا تھا‘۔
غیر معمولی افواہ
ڈاکٹر بوس ان اطلاعات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ پاکستانی فوج نے تیس لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا تھا۔ اس تعداد کو ایک بہت بڑی افواہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ تعداد کسی گنتی یا جائزے کی بنیاد پر مبنی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا ’پاکستانی فوج کے ہاتھوں تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل کی مقبولِ عام باتیں کسی سرکاری رپورٹ کا حوالہ نہیں دیتیں‘۔
نعیم مہیمن ڈاکٹر بوس کے اس لڑائی کے دوران ہلاکتوں کے اندازوں کو رد کرتے ہیں۔’ جنید قاضی جیسے محققین نے ذرائع ابلاغ میں دیے گئے ہلاکتوں کے بارہ مختلف اندازے پیش کیے ہیں۔ تاہم کسی بھی صورت میں چاہے ہلاکتیں تیس لاکھ تھیں یا تین لاکھ کیا اس سے یہ ایک کم درجے کی نسل کشی بن جاتی ہے۔‘
ڈاکٹر بوس نے اپنی کتاب پاکستان اور اس کے حامیوں کے مظالم کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور ان کی کتاب میں اس پر کئی ابواب موجود ہیں۔ وہ اپنی کتاب میں یہی نتیجہ نکالتی ہیں کہ پاکستانی فوج نے سیاسی اور ماورائے عدالت قتل کیے جو کہ کچھ معاملات میں نسل کش بھی تھے۔
بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے اب تک اس کتاب پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن اس ملک میں سنہ انیس سو اکہتر کی جنگ کے بارے میں معترضانہ خیالات رکھنے کا نتیجہ رواں برس اپریل میں اس وقت سامنے آیا تھا جب اس لڑائی کے دونوں میں ایک خاتون کی پاکستانی فوجی سے محبت کی کہانی پر مبنی فلم کی نمائش ان الزامات کے بعد روک دی گئی تھی کہ وہ تاریخ مسخ کرنے کی کوشش ہے۔
Advertisements

No comments:

Post a Comment