ORIGINAL Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/06/05/billionaire-saint-vs-indian-parliament/
BILLIONAIRE SAINT Vs INDIAN PARLIAMENT
BILLIONAIRE SAINT Vs. INDIAN PARLIAMENT
(June 5, 2011)
This is for Action Research Forum rendering services for promotion of knowledge
(June 5, 2011)
This is for Action Research Forum rendering services for promotion of knowledge
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2011/06/110605_ramdev_analysis_si.shtml
, 10:02 GMT 15:02 PST اتوار 5 جون 2011
پارلیمان بمقابلہ سادھو
شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
چار ردز پہلے یوگا گرو بابا رام دیو جب دلی پہنچے تو مرکزی حکومت نے سب سے سینئر وزیر پرنب مکھرجی سمیت چار اہم وزیروں کو ان کا خیر مقدم کرنے کے لیے ہوائی اڈے بھیجا۔ اور جب بابا نےاپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ دلی کے وسط میں کالے دھن اور کالا دھن جمع کرنے والوں کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کی تو حکومت نے انہیں اور ان کے حامیوں کو نصف شب جبرآ وہاں سے ہٹا دیا اور بابا کو ایک طیارے پر بٹھا کر دلی سے باہر بھیج دیا۔ انہیں پندرہ دن تک شہر میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
حکومت نے بابا کو ’ٹھگ‘ اور ’دھوکے باز‘ قرار دیا ہے اور ان کی تحریک جبراً ختم کروانے کا دفاع کیا ہے۔ ادھر حزب اختلاف نے اسے جمہوریت کا قتل کہا اور بابا کی مکمل حمایت کی ہے۔ یہ صورتحال بھارت کے پارلیمانی سیاسی نظام میں پھیلے ہوئے کنفیوژن اور سیاسی جماعتوں کے کام کرنے کے طر یقہء کار کے بارے میں عوام کی مایوسی کی عکاس ہے۔
عوام ملک میں پھیلی ہوئی بدعنوانی، سرکاری اہلکاروں کی نااہلی اور بے حسی اور حکومت کی سست روی سے سخت برہم ہیں۔ وہ ایک عرصے سے یہ توقع کر رہے تھے کہ ایماندار سمجھے جانے والے منموہن سنگھ کی حکومت بد عنوانی کے خلاف جلد ہی موثر قدم اٹھائے گی۔ لیکن وہ کوئی قدم اٹھانے کے بجائے وزیروں اور سرکاری اداروں پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کا دفاع کرنے میں مصروف رہی۔ دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتیں جو پہلے ہی کوئی عملی متبادل ایجنڈہ دینے میں ناکام رہی ہیں محض منفی سیاست اور بےکار کی بحث وتکرار میں پھنسی رہیں۔
اسی پس منظر میں مہاراشٹر کے ایک دیہی گاندھیائی رہنما انا ہزارے اور شمالی ہندوستان کے ایک ارب پتی سادھو نے جب بدعنوانی اور کالے دھن کے خلاف تحریک شروع کی تو وہ چند ہی دنوں میں ایک زبردست خود ساختہ عوامی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ حزب اختلاف نے اپنی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی سے جو سیاسی خلا پیدا کیا ہے اسے ملک کا ایک سادھو اور ایک سادہ لوح باشندہ پورا کر رہا ہے۔
یہ دونوں ہی رہنما بنیادی طور پر منتخب جمہوری نظام کے خلاف ہیں۔ انہیں جو حمایت مل رہی ہے وہ بھی اس بات کی غماز ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام کی تمناؤں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ لوگوں کا ملک کے سیاسی نظام او ر سیاسی جماعتوں سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ حکومت نے عوامی تحریک کے دباؤ کے سبب پچھلے کچھ دنوں میں بد عنوانی کے سلسلے میں جو قدم اٹھائے ہیں ان سے عوام کو اور زیادہ یقین ہو گیا ہے کہ حکومت بدعنوانی کو ختم کرنے کے بارے میں قطعی سنجیدہ نہیں ہے۔
پورا ملک اس تحریک کو بہت غور سے دیکھ رہا ہے اور اس منظر میں حزب اختلاف کا کوئی کردار نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں صرف پس منظر میں ہی نہیں چلی گئی ہیں ۔انہیں ایک ولن‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
قانون کس طرح کا بنے گا وہ آج ایک سادھو اور پانچ ایسے لو گ طے کر رہے ہیں جو عوام کے منتخب نمائندے بھی نہیں ہیں۔ جو کام پارلیمنٹ میں ہونا تھا وہ اب غیر پارلیمانی طریقے سے ہو رہا ہے۔
حکومت پوری طرح ہجوم کی گرفت میں ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں سبکی اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ ہجوم کی حمایت بھی کر رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس تکلیف میں بھی ہیں کہ جو کام انہیں کرنا چاہیے تھا ہو وہ کام اب سادھو اور سیاسی و غیر منتخب لوگ کر رہے ہیں۔
حکومت کو اپنی عملداری پر چوٹ محسوس ہو گئی ہے۔ اس نے جس طرح ملک کے انتہائی مقبول سادھو بابا رام دیو کو راتوں رات پکڑ کر شہر بدر کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کے وہ اب مزید ہجوم کی گرفت میں نہیں رہنا چاہتی۔ اس کے اس قدم کی ہر حلقے میں مذمت ہوئی ہے۔ لیکن کئی دانشوروں کا خیال ہے کہ الیکٹورل پارلیمانی نظام کی بہتری کے لیے سیاست کو باباؤں اور غیر سرکاری تنظیموں کے چنگل سے آزاد رکھنا ہوگا۔
لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ اگر حکومت نے بدعنوانی کے خلاف فوری طور پر واضح اور موثر اقدامات نہیں کیے تو وہ نہ صرف بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں سب سے` بدعنوان حکومت کے طور پر جانی جائے گی بلکہ مستقبل کے انتخابات اس کے لیے سیاسی تابوت ثابت ہونگے۔
*****
SEE MORE: INDIAN COURT JAILS POPULAR GURU FOR LIFE OVER TEEN RAPE: https://arynews.tv/en/indian-popular-guru-raping-teenager/
, 10:02 GMT 15:02 PST اتوار 5 جون 2011
پارلیمان بمقابلہ سادھو
شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
چار ردز پہلے یوگا گرو بابا رام دیو جب دلی پہنچے تو مرکزی حکومت نے سب سے سینئر وزیر پرنب مکھرجی سمیت چار اہم وزیروں کو ان کا خیر مقدم کرنے کے لیے ہوائی اڈے بھیجا۔ اور جب بابا نےاپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ دلی کے وسط میں کالے دھن اور کالا دھن جمع کرنے والوں کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کی تو حکومت نے انہیں اور ان کے حامیوں کو نصف شب جبرآ وہاں سے ہٹا دیا اور بابا کو ایک طیارے پر بٹھا کر دلی سے باہر بھیج دیا۔ انہیں پندرہ دن تک شہر میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
حکومت نے بابا کو ’ٹھگ‘ اور ’دھوکے باز‘ قرار دیا ہے اور ان کی تحریک جبراً ختم کروانے کا دفاع کیا ہے۔ ادھر حزب اختلاف نے اسے جمہوریت کا قتل کہا اور بابا کی مکمل حمایت کی ہے۔ یہ صورتحال بھارت کے پارلیمانی سیاسی نظام میں پھیلے ہوئے کنفیوژن اور سیاسی جماعتوں کے کام کرنے کے طر یقہء کار کے بارے میں عوام کی مایوسی کی عکاس ہے۔
عوام ملک میں پھیلی ہوئی بدعنوانی، سرکاری اہلکاروں کی نااہلی اور بے حسی اور حکومت کی سست روی سے سخت برہم ہیں۔ وہ ایک عرصے سے یہ توقع کر رہے تھے کہ ایماندار سمجھے جانے والے منموہن سنگھ کی حکومت بد عنوانی کے خلاف جلد ہی موثر قدم اٹھائے گی۔ لیکن وہ کوئی قدم اٹھانے کے بجائے وزیروں اور سرکاری اداروں پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کا دفاع کرنے میں مصروف رہی۔ دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتیں جو پہلے ہی کوئی عملی متبادل ایجنڈہ دینے میں ناکام رہی ہیں محض منفی سیاست اور بےکار کی بحث وتکرار میں پھنسی رہیں۔
اسی پس منظر میں مہاراشٹر کے ایک دیہی گاندھیائی رہنما انا ہزارے اور شمالی ہندوستان کے ایک ارب پتی سادھو نے جب بدعنوانی اور کالے دھن کے خلاف تحریک شروع کی تو وہ چند ہی دنوں میں ایک زبردست خود ساختہ عوامی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ حزب اختلاف نے اپنی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی سے جو سیاسی خلا پیدا کیا ہے اسے ملک کا ایک سادھو اور ایک سادہ لوح باشندہ پورا کر رہا ہے۔
یہ دونوں ہی رہنما بنیادی طور پر منتخب جمہوری نظام کے خلاف ہیں۔ انہیں جو حمایت مل رہی ہے وہ بھی اس بات کی غماز ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام کی تمناؤں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ لوگوں کا ملک کے سیاسی نظام او ر سیاسی جماعتوں سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ حکومت نے عوامی تحریک کے دباؤ کے سبب پچھلے کچھ دنوں میں بد عنوانی کے سلسلے میں جو قدم اٹھائے ہیں ان سے عوام کو اور زیادہ یقین ہو گیا ہے کہ حکومت بدعنوانی کو ختم کرنے کے بارے میں قطعی سنجیدہ نہیں ہے۔
پورا ملک اس تحریک کو بہت غور سے دیکھ رہا ہے اور اس منظر میں حزب اختلاف کا کوئی کردار نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں صرف پس منظر میں ہی نہیں چلی گئی ہیں ۔انہیں ایک ولن‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
قانون کس طرح کا بنے گا وہ آج ایک سادھو اور پانچ ایسے لو گ طے کر رہے ہیں جو عوام کے منتخب نمائندے بھی نہیں ہیں۔ جو کام پارلیمنٹ میں ہونا تھا وہ اب غیر پارلیمانی طریقے سے ہو رہا ہے۔
حکومت پوری طرح ہجوم کی گرفت میں ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں سبکی اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ ہجوم کی حمایت بھی کر رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس تکلیف میں بھی ہیں کہ جو کام انہیں کرنا چاہیے تھا ہو وہ کام اب سادھو اور سیاسی و غیر منتخب لوگ کر رہے ہیں۔
حکومت کو اپنی عملداری پر چوٹ محسوس ہو گئی ہے۔ اس نے جس طرح ملک کے انتہائی مقبول سادھو بابا رام دیو کو راتوں رات پکڑ کر شہر بدر کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کے وہ اب مزید ہجوم کی گرفت میں نہیں رہنا چاہتی۔ اس کے اس قدم کی ہر حلقے میں مذمت ہوئی ہے۔ لیکن کئی دانشوروں کا خیال ہے کہ الیکٹورل پارلیمانی نظام کی بہتری کے لیے سیاست کو باباؤں اور غیر سرکاری تنظیموں کے چنگل سے آزاد رکھنا ہوگا۔
لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ اگر حکومت نے بدعنوانی کے خلاف فوری طور پر واضح اور موثر اقدامات نہیں کیے تو وہ نہ صرف بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں سب سے` بدعنوان حکومت کے طور پر جانی جائے گی بلکہ مستقبل کے انتخابات اس کے لیے سیاسی تابوت ثابت ہونگے۔
*****
SEE MORE: INDIAN COURT JAILS POPULAR GURU FOR LIFE OVER TEEN RAPE: https://arynews.tv/en/indian-popular-guru-raping-teenager/
Advertisements
No comments:
Post a Comment