Wednesday 23 May 2018

IS PAKISTANI ARMY COMPETENCE DOUBTS TO PROTECT NUKE ARSENAL? Posted on May 24, 2011


ORIGINAL Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/05/24/s-pakistani-army-competence-doubts-to-protect-nuke-arsenal/

IS PAKISTANI ARMY COMPETENCE DOUBTS TO PROTECT NUKE ARSENAL?

IS PAKISTANI ARMY COMPETENCE DOUBTS TO PROTECT NUKE ARSENAL?
(May 24, 2011)
This is for Action Research Forum rendering services for promotion of knowledge
پاکستانی افواج کی صلاحیت پر شکوک
اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
بحریہ کے مہران بیس پر شدت پسندوں کے حملے نے جہاں افواج پاکستان کی ساکھ کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے وہاں جوہری اثاثوں کی حفاظت کے لیے بھی کئی سوالات پیدا کردیے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کے بارے میں مغربی خدشات کو کراچی حملے کی وجہ سے شہہ ملے گی اور پاکستان پر بیرونی دباؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے امریکی آپریشن کے بعد جس طرح بری فوج اور فضائیہ کی ساکھ شدید متاثر ہوئی اور ان کی اہلیت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے، بالکل اس طرح کراچی حملے نے بحریہ کی اہم تنصیبات کے حفاظتی انتظامات کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔
ایبٹ آباد واقعہ کے بعد تو فوجی حکام نے کہا کہ امریکہ کے پاس جدید ٹیکنالوجی تھی اس لیے ان کے ہیلی کاپٹر راڈار پر نظر آئے اور نہ ہی ان کا پیچھا کرسکے لیکن کراچی واقعہ نے سیکورٹی فورسز کی اہلیت کے لیے ایک نیا سوال یہ پیدا کیا ہے کہ طالبان شدت پسندوں کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ تھا؟۔ اس سوال کا تاحال متعلقہ حکام اطمینان بخش جواب نہیں دے پائے۔
پاکستان بحریہ کے ایک ریٹائرڈ افسر وائس ایڈمرل جاوید اقبال کہتے ہیں کہ ’پہلے ہماری آرمی کو دس سالہ جنگ میں ذلیل کیا گیا۔ پھر ایبٹ آباد واقعہ نے آرمی اور ایئرفورس کو زیرو کردیا اور اب نیوی کو زیرو کردیا ہے۔ تو اب ہمیں کہا جا رہا ہے کہ بچو تم اس قابل نہیں ہو کہ کوئی چیز (جوہری اثاثے) رکھ سکو۔۔۔اس لیے جو تمہارے پاس کھلونے پڑے ہیں یہ پٹاخے یہ ہمیں واپس دے دو جب تم بالغ ہوجائے گو تو تمہیں واپس دے دیں گے۔‘
پاک بحریہ کے سابق افسر نے اس تاثر سے اتفاق کیا کہ اب پاکستان پر جوہری اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا اور پاکستان کے لیے آنے والے دنوں میں مشکلات بڑھیں گی۔
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پہلے بری فوج کے راولپنڈی میں واقع ہیڈ کوارٹر اب بحریہ کے کراچی کی اہم تنصیبات پر حملے اور ’پی سی تھری اورین‘ جیسے اہم ترین دو طیارے تباہ ہونے کے واقعات افواج پاکستان کی قیادت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
کیونکہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اس طرح کے حملوں میں یہ ممکن ہی نہیں کہ باہر سے آنے والے شدت پسند اندر سے ملنے والی معلومات کے بنا کوئی کارروائی کر سکیں اور شدت پسندوں کے افواج کے اندر تعلقات ختم کرنا ہی انٹیلیجنس حکام کے لیے نیا اور بڑا چیلینج ہوگا۔
کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی ایسٹیبلشمینٹ ’اچھے جہادی‘ اور ’برے جہادی‘ کی تمیز پر مبنی اپنی پالیسی ترک کرکے شدت پسندوں کے خلاف سیاسی قیادت کی تائید کے ساتھ بھرپور کارروائی کرے۔
Advertisements

No comments:

Post a Comment