Thursday, 24 May 2018

QADEER KHAN & MISSILE PROGRAM UNDER CLOSE AMERICAN WATCH Posted on May 25, 2011


ORIGINAL Soiurce: https://be4gen.wordpress.com/2011/05/25/qadeer-khan-missile-program-under-close-american-watch/

QADEER KHAN & MISSILE PROGRAM UNDER CLOSE AMERICAN WATCH

QADEER KHAN & MISSILE PROGRAM UNDER CLOSE AMERICAN WATCH
(May 25, 2011)
This is for Action Research Forum rendering services for promotion of knowledge
13:00 GMT 18:00 PST, بدھ 25 مئ 2011 ,
قدیر اور میزائل پروگرام کی امریکی نگرانی
پاکستان کے انگریزی روزنامے ڈان نے وکی لیکس کےاشتراک سے خفیہ امریکی مراسلے شائع کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی یقین دہانیوں کے باوجود امریکہ جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ملک کے میزائل پروگرام کی مسلسل نگرانی کر رہا تھا۔
دنیا بھر میں امریکی سفارتخانوں کی طرف سے لکھے جانے والے خفیہ مراسلوں میں عالمی مارکیٹ سے پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کے لیے کی جانے والی خریداری کے بارے میں دریافت کیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر سن دو ہزار آٹھ میں انقرہ میں امریکی سفارتخانے کے ڈپٹی چیف آف مشن نینسی مکیلڈاؤنی نے ترک حکام سے ہونے والی اس گفتگو کا خوالہ دیا ہے جس میں اس امریکی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا کہ مشتبہ سامان سے لدے پاکستانی جہاز کے خلاف کارروائی کی جائے۔
خفیہ مراسلے کے مطابق امریکی اہلکار نے ترکی کی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ جاپان اور پاناما کی حکومتوں سے درخواست کرے کہ یا تو اس جہاز کو کسی اور بندرگاہ کی طرف موڑ دیا جائے یا پھر اسے وہاں بھیج دیا جائے جہاں سے یہ روانہ ہوا تھا۔
ترکی کے حکام کا کہنا تھا کہ ترکی کی حکومت کو ایسی کارروائیوں کے لیے مزید وقت چاہیے ہوتا ہے۔ تاہم امریکی ڈپٹی چیف آف مشن کا کہنا ہے کہ اس جہاز سے منسلک جوہری خدشات اور یہ امر کہ پاکستان کا جوہری پروگرام پوری طرح سے جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے ماتحت نہیں ہے، امریکہ کو اس جہاز کو پاکستان پہنچنے سے روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے چاہیں۔
مشتبہ سامان سے لدے پاکستانی جہازوں کو روکنے کے سلسلے میں امریکی حکام نے چین سے بھی رابطہ کیا تھا۔ مثال کے طور پر دسمبر دو ہزار نو کو لکھے جانے والے خفیہ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ جب یہ بات سامنے آئی تھی کہ بیجنگ میں قائم کمپنی نیو ٹیکنالوجی ممنوعہ گائروسکوپ ایک پاکستانی کمپنی جو فروخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو امریکی حکام کو یہ تسلی بخش جواب دیا گیا کہ چین اس معاملے میں بھی جوہری عدم پھیلاؤ کے تمام کیسوں کی طرح فعال طور پر تعاون کرے گا۔
پاکستانی میزائیل پروگرام اور اس کے متعلق بین الاقوامی مارکیٹ میں کی جانے والی خرید و فروخت کی تائیوان میں بھی کڑی نگرانی کی گئی۔ تائیوان سے سن دو ہزار پانچ میں لکھے گئے ایک خفیہ مراسلے میں امریکن انسٹی ٹیوٹ آف تائیوان کے اس وقت کے ڈائریکٹر ڈگلس ایچ پال نے مقامی مینوفیکچرر ایکسٹرا انڈسٹریل کارپوریشن سے پاکستان کی تجارت کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔
اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح پاکستانی مینویکچرر مکینیکل ورکشاپ نے مارچ دو ہزار پانچ میں ایکسٹرا انڈسٹریل کارپوریشن سے ممکنہ طور پر چودہ ہائیڈرالک سلنڈر خریدے تھے۔ دیگر کیسوں کی طرح تائیوان کے حکام سے سفارش کی گئی تھی کہ اگرچہ ایکسٹرا انڈسٹریل کارپوریشن کو انسپکشن لسٹ میں ڈال دیا جائے باوجود اس کے کہ کمپنی نے ملک کے سٹریٹیجک ہائی ٹیک مواد کی ایکسپورٹ سے متعلقہ قواعد و ضوابط کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔
ایک موقع پر فرانسیسی حکام نے اس امریکی درخواست کو مسترد کر دیا کہ ایک فرانسیسی کمپنی ان ٹریڈ ٹو پاکستان کی طرف سے اسلام آباد میں قائم کمپنی نیو ٹیکنالوجی کو بھیجے جانے والے ٹیلی میٹری آلات کو روک لیا جائے کیونکہ اس کمپنی کے پاکستانی میزائیل پروگرام سے قریبی روابط ہیں۔ فرانسیسی اہلکار ڈیوڈ برٹولوٹی نے امریکی حکام کو لکھا ہے کہ فرانس ان ٹریڈ ٹو پاکستان اور پاکستانی کمپنی کے مابین پائے جانے والے روابط سے متعلق مزید مدد کرنا چاہتا ہے لیکن اسے بھیجے جانے والے آلات اور پاکستانی میزائیل پروگرام سے اس کے ممکنہ رابطوں سے متعلق مزید معلومات چاہئیں۔
کچھ خفیہ مراسلوں کے ذریعے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امریکی یہ چاہتے تھے کہ جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مسلسل حراست میں رہیں۔ اپریل سن دو ہزار آٹھ میں اسلام آباد میں امریکی سفیر این پیٹرسن کی طرف سے بھیجے جانے والے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے سٹریٹیجک پلان ڈویژن کے سربراہ خالد قدوائی پر زور دیا ہے کہ ڈاکٹر قدیر کی ممکنہ رہائی سے متعلق سامنے آنے والی اطلاعات سے امریکی حکام کو تشویش ہے۔ این پیٹرسن نے مزید کہا کہ امریکی حکومت ڈاکٹر قدیر کی سرگرمیوں پر موجود پابندیوں کے اٹھائے جانے کے خلاف ہے۔
Advertisements

No comments:

Post a Comment