Monday 28 May 2018

ATROCITY VICTIMS IN RUSSIAN ARMY – UNIQUE AWARENESS BY WEB Posted on June 7, 2011by be4gen ATROCITY VICT

ACTION RESEARCH FORUM: GOD MAY BLESS RECRUITS

ORIGINAL Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/06/07/atrocity-victims-in-russian-army-%E2%80%93-unique-awareness-by-web/


ATROCITY VICTIMS IN RUSSIAN ARMY – UNIQUE AWARENESS BY WEB

ATROCITY VICTIMS IN RUSSIAN ARMY – UNIQUE AWARENESS BY WEB
(June 7, 2011)
This is for Action Research Forum rendering services for promotion of knowledge
http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2011/06/110606_russia_soldiers_social_zz.shtml
15:38 GMT 20:38 PST, پير 6 جون 2011
’روسی فوج میں تشدد پر ایک منفرد مہم‘
ہیلو میرا نام نکولے ہے، میری عمر بیس برس ہے اور میں روسی فوج میں خدمات سر انجام دیتے ہوئے مر گیا ہوں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کی روسی طرز ’اودنوکلاسنیکی ڈاٹ آر یو‘ کے ایک صفحے پر موجود ستائیس جواں عمر مرد جو زیادہ تر فوجی یونیفام ہیں ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ویب سائٹ پر اس صفحے کی تخلیق کا مقصد روسی فوج میں ہونے والے تشدد کو اجاگر کرنا ہے۔
صحفے پر موجود بہت سارے افراد مسکراتے اور فخر محسوس کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ تمام روسی فوج میں ملازمت کے دوران ہلاک ہوئے ہیں لیکن ان میں سے محض چند ایک ہی چیچنیا اور داغستان میں فوجی کارروائی کے دوران ہلاک ہوئے ۔
ایک غیر سرکاری خیراتی تنظیم’مدر رائٹس فاؤنڈیشن‘ یا ماؤں کے حقوق کی تنظیم نے یہ منفرد صفحہ تخلیق کیا ہے۔
یہ تنظیم سنہ انیس سو نوے سے ہلاک ہونے والے فوجیوں کے والدین کو مفت قانونی حمایت مہیا کر رہی ہے اور انھیں روس کے عدالتی نظام کی بھول بھلیوں سے نکلنے کے حوالے سے مدد فراہم کرتی ہے۔
سال دو ہزار نو میں امریکہ کی خاتون اول مشعل اوباما اور امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے تنظیم کی سربراہ کے کام کے اعتراف میں انھیں’ انٹرنیشنل وومن آف کوریج یا دنیا کی باہمت خواتین‘ کے اعلیٰ ایوارڈ سے نوازا تھا۔
اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس کے نئے تخلیق کردہ صفحہ پر موجود زیادہ فوجیوں میں سے زیادہ تر غیر معمولی وحشیانہ تشدد، جرائم، نامناسب حالات کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
ان میں سے بعض کو ان کے ساتھی فوجی اہلکاروں نے بغیر کسی وجہ سے، مار مار کی ہلاک کر دیا۔
اس تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ دوسرے کئی مسلسل تشدد اور ہراساں کرنے کی وجہ سے خودکشی پر مجبور ہو گئے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے اس صفحے پر نظر آنے والے تمام افراد بہت حد تک زندہ نظر آتے ہیں۔
ویب سائٹ کے صارفین ان کو اپنے دوستوں کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں، ان کے پروفائل پر اپنے تاثرات کا اظہار کر سکتے ہیں اور ان کو نجی طور پر پیغامات بھیج سکتے ہیں۔
پیج پر نظر آنے والے افراد نے اپنی معلومات میں اپنی زندگی اور موت کے بارے میں تفصیلات بتائی ہیں۔
نکولی ایشمو کی کہانی کے مطابق ان کا تعلق چیلائیابینسک کے قریب کے ایک گاؤں محزوزنیجئی سے ہے۔
’ بیس اگست سال دو ہزار سات کو نشے میں دھت ایک افسر نے سینتالیس ساتھی فوجی اہلکاروں کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا اور اس کے اس عمل کی بظاہر کوئی وجوہات نہیں تھیں، فوجی افسر کی جانب سے فائر کی گئی گولی عین میرے آنکھوں کے درمیان آ کر لگی۔‘
’مدرز رائٹ تنظیم اور میری والدہ کی کوششوں کے بعد عدالت کے تیس کیسز میں میرے قاتل کو پانچ سال اور چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی تاہم اب بھی میری ماں ہر روز روتی ہے اور بعض اوقات میرے والدین مجھے خواب میں ملتے ہیں۔‘
ماؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے تنظیم مدرز رائٹس کی سربراہ ویرونیکا مارچوینکو کا کہنا ہے کہ روسی فوج کے اندر تشدد کے واقعات کو اجاگر کرنے کے حوالے سے انٹرنیٹ پر غیر معمولی انداز سے شروع کی جانے والی مہم کے چند ہفتوں کے اندر ہی لوگوں نے اس مسئلے پر بات کرنا شروع کر دی ہے۔
’ ان معلومات کو دنیا کے ساتھ تبادلے سے ہم دکھاتے ہیں کہ ان فوجیوں کے ساتھ کیا ہوا اور اس میں صرف چند یا مختصر الفاظ اور اعداد و شمار ہی نہیں ہوتے بلکہ اس میں ان لڑکوں کے بارے میں بہت جامع اور ٹھوس مثالیں ہوتی ہیں اور اس وجہ سے لوگوں نے اس کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا ہے کہ آیا یہ صورتحال ٹھیک ہے اور اس کو تبدیل کرنے کے حوالے سے وہ کیا کر سکتے ہیں۔
تنظیم کی سربراہ کے مطابق ’میں مر گیا ہوں یا مجھے مار دیا گیا‘ فوجیوں کے خود اپنے بارے میں بتانے کا یہ طریقہ کار لوگوں کو فوری ششدر کرنے اور اس ضمن میں لوگوں کے ردعمل کے اظہار کا سبب بنتا ہے۔‘
’ہو سکتا ہے کہ آپ اسی عمارت میں ایک خاتون کے طور پر رہتی ہوں اور آپ کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ سے ہی معلوم ہو کہ اسی عمارت کی کسی خاتون کا بیٹا فوج میں مارا گیا ہے، کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک دوسرے سے میل جول کرتے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ عام زندگی میں یہ میل جول ایک دوسرے سے نہ کرتے ہوں۔‘
ن کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے فوجیوں کے والدین نہ صرف زرتلافی اور انصاف کے طلب گار ہوتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کیسے اور کیوں ہلاک ہوئے۔
ہلاک ہونے والے نوجوان فوجیوں کے بارے میں عام طور پر یہ ہی فیصلہ کیا جاتا ہے کہ انھوں نے خودکشی کر لی ہے تاہم اکثر اوقات ان کے والدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹوں کے جسم پر تشدد کے نشانات دیکھے ہیں اور ان کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔
بعض والدین کا خیال ہے کہ ان کے بیٹوں کو مار مار کر ہلاک کیا گیا اور بعد میں ان کی گردن میں رسی کا پھندا ڈال دیا گیا کہ قتل کو خودکشی ظاہر کیا جا سکے اور یا ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ خودکشی کر لیں۔
انیس سالہ ایگور اینڈریو کی سال دو ہزار پانچ میں روسی شہر سینٹ پیٹرسبرگ میں موت واقع ہو گئی۔ان کا تبادلہ ایک فوجی یونٹ سے دوسری یونٹ میں ہو رہا تھا کہ اس دوران ایک ٹرین میں اپنی بیلٹ گردن میں ڈال کر لٹکنے کی وجہ سے ان کی ہلاکت ہوئی۔
اس فوجی کے والد کا کہنا ہے کہ اس خبرنے شدید صدمہ پہنچایا اور ہلا کر رکھ دیا کہ ان کے بیٹے کا پوسٹ مارٹم یا طبی معائنہ نہیں کیا گیا۔
اس نوجوان فوجی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’فوجی اہلکاروں نے ہمیں بتایا کہ ان کے بیٹے کی لاش گزشتہ پانچ روز سے بند ہے اور وہ لاش کو محفوظ رکھنے والی خوشبو یا مسالحہ ڈالنا
بھول گئے ہیں لہذا تابوت کو نہ کھولا جائے۔‘
’ یہ کیسے ممکن ہے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ہمیں تابوت کھولنے کی اجازت نہیں دی۔‘
اس نوجوان فوجی کی کہانی ویب سائٹ پر کھلے عام پڑی ہے اور ہر کوئی اسے پڑھ سکتا ہے۔
کہانی کے مطابق’دوسرے فوجی مجھے مسلسل رسوا اور ہراساں کرتے تھے، وہ مجھ سے رقم کا مطالبہ کرتے تھے، مجھے مارتے تھے اور میرا جسم زخموں سے چور ہے۔‘
’پندرہ مارچ سال دو ہزار پانچ میں مجھ پر ایک فوجی نے اس لیے شدید تشدد کیا کیونکہ میں اس کے لیے رقم کا انتظام نہیں کر سکا تھا کیونکہ میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ مسلسل تشدد اور تذلیل نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔‘
ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ انھیں معلوم تھا کہ فوج سخت ہو سکتی ہے تاہم انھیں اس کی حد کا اندازہ نہیں تھا کہ میرا بیٹا جو زندہ تھا اس کو ہراساں کرنے والے سزا سے مکمل طور پر بچے رہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں فوجی غیر جنگی واقعات میں ہلاک ہو جاتے ہیں اور بڑی تعداد میں جب فوجی گھروں کو واپس آتے ہیں تو جسمانی یا ذہنی یا دونوں طور پر معذور ہوتے ہیں۔
سال دو ہزار چھ میں انیس سالہ اینڈری کا واقعہ خبروں میں اس وقت آیا جب انھیں نئے سال کی آمد پر کئی گھنٹوں تک اکڑوں بٹھائے رکھا گیا اور کرسی پر جکڑ کر وحشایانہ تشدد کے بعد ان کی ٹانگوں اور اعضائے تناسل پر شدید زخم لگائے گئے۔ اینڈری کی شدید تکلیف کی شکایت کو نظر انداز کر دیا گیا اور پانچ دن کے بعد انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے گنگرین کی وجہ سے ان کی ٹانگوں کو کاٹ دیا۔
اس طرح کی ہولناک کہانیاں سننے کے بعد نوجوان مرد ہر ممکن طور پر فوج میں جانے سے گریز کرتے ہیں اور اس کے لیے بعض اوقات وہ ہزاروں ڈالر رشوت کے طور پر ادا کرتے ہیں تاکہ ان کو طبی طور پر پاگل قرار دے دیا جائے کیونکہ انہوں نے کئی ماہ ذہنی امراض کے مراکز میں گزارے ہیں۔
روسی حکومت اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے کچھ عرصے سے کام کر رہی ہے۔
سال دو ہزار آٹھ میں روس کے وزیر دفاع نے فوج میں اصلاحات کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جن کے تحت افسران کی تعداد میں کمی، ملازمت کی مدت میں ایک سال کی کمی اور کچھ فارمیشنز اور یونٹس کو ختم کرنے سمیت دیگر اقدامات شامل تھے۔
روس کے ایک رکن پارلیمان اور ڈوما کی کمیٹی برائے دفاع کے رکن میخالی نیناشیو کا کہنا ہے کہ’ ملازمت کی مدت میں کٹوتی کرنا بہت آسان ہے لیکن اس بات کی کوئی ظاہری وجہ نہیں ہے کہ پہلے ملازمت کو ضبط کیا جائے اور پھر اس کو نئے ریکروٹس سے پُر کیا جائے۔‘
روس کی وزارتِ دفاع نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ زمانہ امن میں پانچ سو کے قریب فوجی ہلاک ہو جاتے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور یہ تعداد سالانہ دو ہزار سے تین ہزار تک ہے۔
اور مدرز رائٹ جیسی تنظییں فوج میں تبدیلی کے لیے دباؤ برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوں گی۔
ایگور کی ماں کا کہنا ہے کہ اس ذریعے سے ان کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے بیٹے کی موت رائیگاں نہیں گئی ہے۔
کوئی بھی ان کے بیٹے ایگور کو واپس نہیں لا سکتا لیکن ان کی کہانی کے آن لائن پر تبادلے کی وجہ سے دوسرے نوجوان روسیوں کو فائدہ ہو گا اور ان کے اہلخانہ تکلیف سے بچ جائیں گے۔
Advertisements

No comments:

Post a Comment