Tuesday, 22 May 2018

PAKISTAN – ISI BIRTH AND SIGNIFICANCE Posted on May 13, 2011


ORIGINAL Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/05/13/pakistan-%E2%80%93-isi-birth-and-significance/


PAKISTAN – ISI BIRTH AND SIGNIFICANCE

PAKISTAN – ISI BIRTH AND SIGNIFICANCE
(May 13, 2011)
آخری وقت اشاعت: جمعـء 13 مئ 2011 ,‭ 19:58 GMT 00:58 PST
پاکستان: آئی ایس آئی کا وجود اور اہمیت
برطانوی اخبار گارڈیئن کے مطابق آئی ایس آئی کی بنیاد ایک آسٹریلوی باشندے نے ڈالی تھی۔
جیسے ہی پاکستان بھارت کے ساتھ 1948 کی جنگ سے باہر آیا برطانوی فوج سے عارضی تبادلے پر آئے میجر جنرل آر کوتھرون نے محسوس کیا کہ نہ تجربہ کار پاکستانی فوج کو ایک مناسب انٹیلیجنس ادارے کی ضرورت ہے۔
ابتداء کے دس سال آئی ایس آئی کے لیے کچھ اچھے نہیں رہے اور تنظیم 1965 کی جنگ میں بری طرح ناکام رہی اور 1971 میں مشرقی پاکستان میں جاری شورش کو پہچاننے میں بھی ناکام رہی جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا۔
تاہم حالات اس وقت بدلے جب 1979 میں کرسمس کے موقع پر افغانستان میں سوویت ٹینکوں نے چڑھائی کی۔
ایک دہائی تک چلنے والی اس جنگ میں امریکہ نے مالی مدد کی، افغان اور عربوں نے لڑی لیکن اس جنگ کی بساط پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آئی ایس آئی نے بچھا رکھی تھی اور یہیں سے اس ایجنسی کی قسمت بدل گئی۔
ایجنسی نے افعانستان کی سرحد پر خفیہ ٹریننگ کیمپ بنا رکھے تھے جس میں اسی ہزار سے زائد جنگجوؤں کو’جہاد‘ کی ٹریننگ دی گئی۔
آئی ایس آئی اسلحے کی پائپ لائن کو کنٹرول کرتی تھی جس کی مالی امداد امریکہ کی سی آئی اے اور سعودی انٹیلیجنس کر رہی تھی۔
اس پائپ لائن کے ذریعے کراچی سے خیبر پاس تک کلاشنکوف اور توپ شکن میزائل سمگل کی جاتی تھیں۔اس طرح یہ ایجنسی طاقتور اور دولت مند ہوتی گئی۔
1989 میں افغانستان سے روسیوں کے انخلاء کے بعد سی آئی اے نے پاکستان کو تقریباً خیر باد کہہ دیا تھا لیکن آئی ایس آئی میں جہاد کا جذبہ باقی رہا۔ آئی ایس آئی کے پاکستانی افسران میں اس نظریے نے اس خفیہ ایجنسی کی شکل ہی تبدیل کر دی۔ آئی ایس آئی نے پورے ایشیا یعنی بنگلہ دیش، ازبکستان، برما اور بھارت میں اسلامی گروپوں کی حمایت شروع کر دی۔
1993 میں امریکہ نے پاکستان کو ان ملکوں کی فہرست میں شامل کردیا جن پر دہشتگرد ہونے کا شبہ ہے۔
ایجنسی کی اس بدلتی شکل کو درست کرنے کے لیے ایک
سیکولر ذہن کے افسر اشرف قاضی کو بھیجا گیا۔ اشرف قاضی کا کہنا تھا ’میں نے وہاں جو دیکھا وہ چونکا دینے والا تھا‘۔ آئی ایس آئی کے سینیئر افسروں کی یونیفارم شلوار قمیض میں تبدیل ہو چکی تھی، ان کے ماتحت کئی گھنٹوں تک نماز کے لیے غائب رہتے تھے۔
آئی ایس آئی نے بینکاک میں ایک ہوٹل خرید لیا تھا تاکہ ہتھیاروں کا کاروبار کیا جا سکے۔
گارڈیئن کے مطابق ایجنسی کے سبکدوش ہونے والے سربراہ جاوید ناصر پلے بوائے سے ایک کٹر ملا میں تبدیل ہو چکے تھے جنہوں نے اسلامی ڈاڑھی رکھ لی تھی اور عورتوں سے ہاتھ ملانے سے انکار کرتے تھے۔
قاضی نے ایجنسی سے انتہا پسندوں کا صفایا شروع کیا۔ بینکاک کا ہوٹل فروخت کیا اور اپنے ماتحتوں سے باقاعدہ یونیفارم پہننے کو کہا لیکن پھر بھی آئی ایس آئی کا ’جہاد‘ پورا نہیں ہوا۔
نوے کی دہائی میں آئی ایس آئی نے افغانستان میں طالبان تحریک کی حمایت شروع کر دی اور طالبان رہنما ملا عمر کو مشورے دینے کے لیے کرنل امام کو افغانستان بھیجا گیا۔ یہی وہ کرنل امام تھے جنہوں نے اسّی کی دہائی میں آئی ایس آئی کی حمایت سےمجاہدین کیمپ میں ملا عمر کو ٹریننگ دی تھی
گزشتہ ایک دہائی میں آئی ایس آئی نے ’جہاد‘ ترک کرنے کا پروپیگنڈہ کیا۔
2001 میں جب امریکی اسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان پہنچے تو سابق صدر پرویز مشرف نے طالبان سے نظریں پھیر لیں اور اس کے بعد جنوری میں انہوں نے جہادی گروپوں کا خاتمہ کرنے کا عزم کیا۔
دیکھنے میں حالات کچھ اور تھے اور حقیقت میں کچھ اور۔ گزشتہ برس وکی لیکس کے کیبلز میں دعویٰ کیا گیا کہ آئی آیس آئی ابھی بھی چوری چھپے افغان طالبان، لشکرِ طیبہ اور حقانی گروپ کی حمایت کر رہی ہے۔
حالانکہ آئی ایس آئی جہادی تشدد کا شکار بنی ہے لیکن پاکستانی طالبان جو افغان تحریک سے جڑے تو ہیں لیکن القاعدہ سے متاثر ہیں اور پاکستانی ریاست پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ آئی ایس آئی نے انہیں دھوکا دیا ہے اور وہ آئی ایس آئی کے دشمن بن چکے ہیں۔
حالیہ برسوں میں آئی ایس آئی کے سینکڑوں افسر ہلاک کر دیے گئے اور قبائلی علاقوں میں ایجنسی کے ایجنٹوں کے سر قلم کیے جا رہے ہیں۔
Advertisements  

No comments:

Post a Comment