ORIGINAL Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/04/27/osama-escape-from-toro-bora-guardian/
OSAMA ESCAPE FROM TORO-BORA (GUARDIAN)
OSAMA ESCAPE FROM TORO-BORA (GUARDIAN)
(Posted on April 27, 2011)
(Posted on April 27, 2011)
This is for Action Research Forum rendering service for promotion of knowledge for better judgment.
اسامہ کا تورہ بورہ سے فرار، گارڈین کے انکشافات
اسامہ بن لادن دسمبرسنہ دو ہزار ایک میں افغانستان کے شمال مشرقی سنگلاخ پہاڑی سلسلے تورہ بورہ میں امریکی اور برطانوی خصوصی دستوں کے تنگ ہوتے ہوئے حصار سے ایک مقامی معمولی جنگجو سردار کے آدمیوں کی مدد سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین نے خلیج گوانتانامو میں قیدیوں سے تفتیش کی فائلوں سے حاصل ہونے والی معلومات کے حوالے سے یہ انکشاف اپنے منگل کے شمارے میں کیا ہے۔
افغانستان میں اتحادی اور امریکی فوج کے نرغے سے اسامہ بن لادن کے فرار ہو جانے کو افغانستان میں فوجی کارروائی کی ابتدائی ناکامیوں میں سے ایک ناکامی قرار دیا جاتا ہے۔
اسامہ کے فرار کے بارے میں کئی داستانیں بیان کی جاتی رہی ہیں لیکن یقینی طور پر اس بارے میں اب تک کچھ نہیں کہا جا سکا ہے۔
گوانتانامو کے قیدیوں کی تفتیش پر مرتب دستاویزات سے دنیا کے ’موسٹ وانٹڈ مین‘ اوسامہ بن لادن کے تورہ بورہ سے بچ نکلنے کی نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
ان دستاویزات سے ایک متحرک مگر منتشر تنظیم کے ارکان کی نقل و حرکت کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح پاکستان اور افغانستان کے علاوہ مغربی ملکوں اور عراق میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔
گوانتانامو کے ایک قیدی ہارون شہر زاد الافغانی سے سنہ دو ہزار سات میں حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اوسامہ تورہ بورہ میں اپنی محفوظ پناہ گاہ کے گرد تنگ ہوتے ہوئے حصار سے ایک پاکستان جنگجو سردار مولوی نور محمد کی مدد سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
اخبار لکھتا ہے کہ مولوی نور محمد کے بارے میں اس دستاویز میں درج معلومات سے اس شخص کی صحیح نشاندہی کرنا مشکل ہے لیکن یہ قرین قیاس یہی ہے کہ یہ وہی مولوی نور محمد ہیں جنہیں سنہ دو ہزار دس میں شمالی وزیرستان کے علاقے میراں شاہ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
دستاویزات کے مطابق مولوی نور محمد نے القاعدہ کے ایک ’فیلڈ کمانڈر‘ ابو تراب سے ملاقات کے بعد چالیس سے پچاس جنگجو فراہم کیے جنہوں نے اپنی حفاظت میں اوسامہ بن لادن اور ان کے معتمد خاص اور نائب ایمن الظواہری کو محفوظ مقام پر منتقل کیا۔
امریکی فوج نے اسامہ بن لادن کو زندہ اور مردہ حالت میں گرفتار کرنے کے لیے فوجی کارروائی کابل پر قبضے کے تین ہفتے بعد شروع کی تھی۔
اس فوجی کارروائی میں ہزاروں افغان اور سو امریکی خصوصی فوجی شامل تھے جو دس دن کی شدید لڑائی کے بعد اسامہ بن لادن کے محفوظ ٹھکانے کے قریب پہنچ گئے تھے۔
ان دستاویزات کے سامنے آنے سے پہلے یہ قیاس کیا جاتا تھا کہ اسامہ تورہ بورہ سے جنوب کی جانب فرار ہوئے اور پاکستانی سرحد پر پاکستانی فوج اور نیم فوجی دستوں کی صفوں کے درمیان سے نکل کر غائب ہو گئے۔
گوانتانامو کے کم از کم دو قیدیوں کے بیانات اور امریکی حکام کی مرتب کردہ خفیہ معلومات کے مطابق اسامہ بن لادن شمال کی جانب اتحادی اور افغان فوجیوں کی صفوں کے درمیان سے فرار ہوئے تھے۔ جہاں سے وہ جلال آباد گئے اور ایک شخص اوال مسلم گل کے گھر پر قیام کیا۔ اس گھر پر آرام کرنے کے بعد اسامہ اور ایمن الظواہری گھوڑوں پر کنڑ چلے گئے جہاں انہوں نے دس ماہ تک قیام کیا۔
اس فوجی کارروائی میں ہزاروں افغان اور سو امریکی خصوصی فوجی شامل تھے جو دس دن کی شدید لڑائی کے بعد اسامہ بن لادن کے محفوظ ٹھکانے کے قریب پہنچ گئے تھے۔
ان دستاویزات کے سامنے آنے سے پہلے یہ قیاس کیا جاتا تھا کہ اسامہ تورہ بورہ سے جنوب کی جانب فرار ہوئے اور پاکستانی سرحد پر پاکستانی فوج اور نیم فوجی دستوں کی صفوں کے درمیان سے نکل کر غائب ہو گئے۔
گوانتانامو کے کم از کم دو قیدیوں کے بیانات اور امریکی حکام کی مرتب کردہ خفیہ معلومات کے مطابق اسامہ بن لادن شمال کی جانب اتحادی اور افغان فوجیوں کی صفوں کے درمیان سے فرار ہوئے تھے۔ جہاں سے وہ جلال آباد گئے اور ایک شخص اوال مسلم گل کے گھر پر قیام کیا۔ اس گھر پر آرام کرنے کے بعد اسامہ اور ایمن الظواہری گھوڑوں پر کنڑ چلے گئے جہاں انہوں نے دس ماہ تک قیام کیا۔
ان دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسامہ بن لادن نے تورہ بورہ سے فرار ہوتے وقت ایک قریبی ساتھی سے سات ہزار ڈالر ادھار لیے تھے۔
ہارون شہرزاد نے بتایا کہ سنہ دو ہزار دو کے آخر میں اسامہ بن لادن نے عبدالہادی العراقی کو بلا کر ان سے لیے ہوئے سات ہزار ڈالر واپس کیے۔
تورہ بورہ پر امریکی حملے سے صرف تین مہینے قبل اسامہ نے قندہار شہر میں ایک ترقیاتی منصوبے کی تکمیل کے لیے گیارہ ہزار ڈالر دیئے تھے۔
ان دستاویزات میں یہ تفصیلات بھی دی گئی ہیں کہ گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو اسامہ کہاں تھے۔
ایک فائل میں کہا گیا کہ گیارہ ستمبر سنہ دو ہزار ایک کو اسامہ بن لادن افغانستان کے مشرقی شہر خوست میں تھے۔ اس بیان کی تصدیق دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی مصدقہ معلومات سے بھی ہوتی ہے۔
ایک فائل میں کہا گیا کہ گیارہ ستمبر سنہ دو ہزار ایک کو اسامہ بن لادن افغانستان کے مشرقی شہر خوست میں تھے۔ اس بیان کی تصدیق دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی مصدقہ معلومات سے بھی ہوتی ہے۔
ایک اور فائل میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر سنہ دو ہزار ایک میں اسامہ بن لادن کابل کے قریب ایک گیسٹ ہاؤس میں موجود تھے۔ تیرہ اکتوبر کو جب کابل پر امریکی قبضہ ہونے ہی والا تھا اس وقت اسامہ بن لادن نے ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں کابل کے شمال میں تعینات عرب جنگجوؤں کے مشرق کی طرف پسپا ہونے کا منصوبہ بنایا گیا۔
تین اکتوبر کو اسامہ بن لادن جلال آباد پہنچ گئے جہاں انہوں نے مقامی جنگجوؤں کی حمایت کو یقینی بنانے کے لیے ایک لاکھ ڈالر بانٹے۔
جلال آباد سے وہ تورہ بورہ کے پہاڑی سلسلے کے غاروں میں بنائی گئی اپنی محفوظ پناہ گاہ میں چلے گئے جو سویت یونین کے حملے کے دوران بنائی گئی تھی۔
یہاں وہ انیس سو چھیانوے میں سوڈان سے واپسی پر بھی ٹھہرے تھے۔
یہاں وہ انیس سو چھیانوے میں سوڈان سے واپسی پر بھی ٹھہرے تھے۔
کچھ قیدیوں نے تورہ بورہ میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں شک کا اظہار کیا ہے۔
بہت سے قیدیوں نے اسامہ بن لادن کو جنگ کے دوران دیکھنے اور ملنے کے بارے میں بتایا۔
یمن سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر ایمن سعید بطرافی نے اسامہ سے اپنی دو ملاقاتوں کے بارے میں بتایا جس میں انھوں نے زخیموں کے علاج کے لیے اسامہ سے دوائیوں کی فراہمی کے بارے میں بات کی۔
ایک اور قیدی نے بتایا کہ اسامہ بن لادن نے ان کے مورچے کا رات کے وقت دورہ کیا اور وہاں موجود جنگجوؤں کو حوصلہ دیا کہ امریکی فوج ابھی بہت دور ہے۔
کئی قیدیوں نے بتایا کہ گیارہ دسمبر کے بعد امریکی فوجیوں کے ساتھ فوجی کارروائی میں شامل مقامی افغان کمانڈروں سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد دسمبر کی سولہ تاریخ تک سرکردہ شدت پسندوں نے جنگجـوؤں کو تورہ بورہ سے بحفاظت نکال کر پاکستان پہنچانے کے لیے گروہ بنانا اور متعین کرنے کا کام شروع کر دیا تھا۔
قیدیوں نے بتایا کہ ان میں سے کئی گروہ میدان جنگ سے فرار ہوتے ہوئے امریکی بمباری کا نشانہ بنے اور بہت سے مارے گئے۔ بہت سے جنگجو پاکستانی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ تاہم ایک قیدی نے بتایا کہ پاکستانی فوج نے ان جنگجوؤں کو جانے دیا۔
جنگجوؤں کے اس انخلاء سے پہلے ہی اسامہ تورہ بورہ سے نکل چکے تھے۔
ایک بیان میں کہا گیا کہ اسامہ اپنے محافظوں کو چھوڑ کر چند منتخب ارکان کے ساتھ عجلت میں تورہ بورہ سے نکل گئے۔
اسامہ بن لادن کے اہل خانہ اس سارے عرصے میں قندہار میں رہے لیکن جنگ کے بعد وہ بھی فرار ہو گئے۔
ایک اور فائل میں کہا گیا کہ اسامہ بن لادن کے ذاتی ڈرائیور سالم احمد سالم اور ایک اور شخص جو بن لادن کی ایک بیٹی کا شوہر تھا انھوں نے افغانستان سے بن لادن کی تین بیویوں کے فرار میں مدد فراہم کی۔
فائل میں کہا گیا ’یہ گروہ قندہار سے فرار ہو کر پاکستان کی سرحد کی طرف چلا گیا۔ اس قیدی سالم احمد سالم نے بتایا کہ پاکستان کی سرحد پرایک شخص موتعز اور اُنہوں نے بن لادن کی بیویوں کو ایک اور گروہ کے حوالے کر دیا اور خود واپس قندہار کا سفر اختیار کیا۔
راستے میں اتحادی فوج کے حملے میں موتعز ہلاک ہو گئے اور سالم احمد سالم کو گرفتار کر لیا گیا۔
ایک اور رپورٹ میں ’مجاہدین‘ اور ان کے اہل خانہ کو نکلنے کے لیے پیسے اکھٹے کرنے کی تفصیلات دی گئیں۔ ان کے مطابق جس شخص کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی اس نے نومبر سنہ دو ہزار ایک سے جنوری سنہ دو ہزار دو کے عرصے کے دوران متعدد مرتبہ دو سعودی عرب امراء کو خط ارسال کیے جن میں اس کام کے لیے رقم فراہم کرنے کی درخواست کی گئی۔ ان سعودی حضرات کی طرف سے جن کے نام نہیں دیئے گئے بیس قسطوں میں دس لاکھ ڈالر کی رقم فراہم کی گئی۔
اوسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کے بارے میں اب نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں۔
ان دستاویزات میں القاعدہ کے سرکردہ ارکان کی نقل و حرکت کے بارے میں بہت سے معلومات دی گئی ہیں لیکن دو اعلی ترین مطلوب اوسامہ بن لادن اور ایمن الزہواری کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ہے۔
ایک اطلاع کے مطابق ایمن الظواہری نے بہت سے دوسرے القاعدہ کے سرکردہ ارکان کی طرح پاکستان کے شہروں میں چھپنے کی کوشش کی۔ لیکن مارچ سنہ دو ہزار تین میں خالد شیخ محمد کی راولپنڈی کے گھر سے گرفتاری کے بعد ایمن الظواہری بھی جنوبی وزیرستان کے علاقے شکئی چلے گئے۔
سنہ دو ہزار پانچ میں ایمن الظواہری کے ایک بوڑھے آدمی کے گھر میں قیام کی خبر تھی۔ شکئی پاک افغان سرحد پر قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کا ایک قصبہ ہے۔
ایک فائل میں کہا گیا کہ القاعدہ کے ایک سینئر رکن ابو فراج اللبی نے دو اگست سنہ دو ہزار تین اور فروری دو ہزار چار کے دوران القاعدہ کی اعلٰی ترین قیادت سے ملنے کے لیے شکئی کا دورہ کیا۔ ابو فراج اللبی کو سنہ دوہزار پانچ میں پاکستان میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ابو فراج اللبی نے شکئی میں جن لوگوں سے ملاقات کی ان میں لندن میں سات اگست سنہ دو ہزار سات میںن ہونے والے بم حملوں کے منصوبہ ساز عبد ہادی العراقی بھی شامل تھے۔
ان دستاویزات سے ایک متحرک مگر منتشر تنظیم کے ارکان کی نقل و حرکت کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح پاکستان اور افغانستان کے علاوہ مغربی ملکوں اور عراق میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔
ان دستاویزات میں ایسی معلومات بھی ملتی ہیں کہ القاعدہ کے ارکان کس طرح وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانےوالے ہتھیاروں کے حصول کی کوششیں کرتے رہے۔
ابوفراج اللبی کے بارے میں دستاویزات سے معلوم ہوا کہ سنہ دو ہزار چار تک شدت پسندوں کو ایک ایسا ہتھیار مل گیا تھا جو کہ یورپ میں کہیں موجود تھا۔ لیکن اس کو چلانے والا کوئی نہیں تھا۔
یہ ہتھیار اوسامہ بن لادن کی گرفتاری یا ہلاکت کی صورت میں استعمال کیے جانے کا منصوبہ تھا۔
اخبار نے آخر میں لکھا ہے کہ ان دستاویزات میں دی گئی معلومات یا دعوؤں کی تصدیق آزادانہ ذرائع سے ممکن نہیں ہے اور ان کا بڑا حصہ قیاس آرائیوں پر مشتمل ہے۔
Advertisements
No comments:
Post a Comment