Saturday, 19 May 2018

MUKHATRA MAI FACED THE JUT JUDICIARY OF PUNJAB-Posted on April 24, 2011


ORIGINAL Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/04/24/mukhtara-mai-faced-the-jut-judiciary-of-punjab/


Mukhtara Mai Faced the JUT Judiciary of Punjab

قانون ضرور جیتا پر انصاف تو ہار گیا
انور سِن رائے
دو دن گزر چکے ہیں سارے کام معمول کے مطابق ہو رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
کم و بیش دس سال پہلے کی بات ہے، پاکستان کے ایک گاؤں میں ایک پنچایت لگی ہوئی ہے۔ پنچایت مستوئی نامی ایک خاندان کے کہنے پر ہو رہی ہے اور ظاہر ہے جب پنچایت ہوتی ہے تو صرف شکایت کرنے والے اور جس کے خلاف شکایت ہو وہی نہیں حاضر ہوتے گاؤں کے کم و بیش تمام ہی لوگ جمع ہوتے ہیں اور جب معاملہ جنسی قسم کا ہو تو سارے مرد تو جمع ہوتے ہی ہیں۔
مستوئیوں کو شکایت ہے کہ گاؤں کے ایک پسماندہ خاندان کے ایک لڑکے شکور کے ان کے خاندان کی ایک لڑکی کے ساتھ تعلقات ہیں۔ ان کا تقاضا ہے کہ پنچایت انھیں انصاف دے۔ پہلی تجویز آتی ہے کہ شکور کی مستوئی لڑکی سے شادی کرا دی جائے۔
مستوئی خاندان کو یہ تجویز پسند نہیں آتی۔ ان کا کہنا ہے کہ بدلہ دیا جائے اور اس کا بدلہ یہ ہو گا کہ مستوئیوں کو شکور کی بہن دی جائے۔ یہ بات بعد میں سامنے آئی کے مستوئی خاندان کے لوگ شکور کو پنچایت میں بلانے سے پہلے ہی جنسی تشدد کا نشانہ بنا چکے تھے لیکن اس سے ان کی تسلی نہیں ہوئی تھی اور اس بات کو کسی نے اہمیت بھی نہیں دی
پنچایت شکور کی بہن مختاراں کو بلواتی ہے اور مستوئیوں کو بدلے کی اجازت دے دیتی ہے۔ مستوئیوں کے کئی مرد مختاراں کو گھسیٹتے ہوئے قریبی جگہ لے جاتے ہیں اور پھر خاصی دیر بعد مختاراں برہنہ حالت میں باہر دھکیل دی جاتی ہے۔ تبھی اس کے والد آتے ہیں اور اسے گھر لے جاتے ہیں۔
یہ سب کچھ صرف پنچایت ہی کے لوگوں کے موجودگی میں نہیں ہوتا وہ سب بھی دیکھتے ہیں جو پنچایت میں تھے لیکن کوئی کچھ نہیں بولتا۔ بولتا بھی کیسے؟ ایک تو پاکستان، پھر دیہی فیوڈل پنجاب جہاں طاقت رضائے الٰہی کا درجہ رکھتی ہے۔ تو بولتا کون؟
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عدالتیں صرف ان حقائق کو دیکھتی ہیں جو ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، پھر سفارش، رسائی اور پیسہ بھی چلتا ہے۔ اور پاکستان میں تو ایک عرصے تک یہ لطیفہ چلتا رہا ہے: بڑا وکیل کرنے کی کیا ضرورت ہے، جج کر لو۔
لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہوتا ہے؟ کیا اب بھی یہی ہو رہا ہے؟ کیا واقعی عدالتیں اس پر غور نہیں کرتیں کہ ان کے سامنے جو حقائق پیش کیے جا رہے ہیں انھیں پیش کرنے والا کون ہے اور کیا حالات ہیں جن میں وہ یہ حقائق پیش کر رہا ہے؟
مختاراں مائی کے معاملے میں کسی عدالت نے یہ ضرورت محسوس کی کہ وہ جائے وقوع پر جاتی، پنچایت میں شریک ہونے والے لوگوں کو اکٹھا کرتی، انھیں مکمل تحفظ کا یقین دلاتی اور انھیں اصل حقائق بیان کرنے پر اکساتی۔ کیوں کہ اوّل تو ایسے معاملے اٹھتے نہیں۔ اٹھ جائیں تو سو نزاکتیں سامنے آ جاتی ہیں۔
اس معاملے میں جنرل مشرف کے بیانات اور حکومتی مداخلت کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔
ضرور سب کچھ قانون کے مطابق ہوا ہو گا۔ لیکن انصاف ہوا ہے یہ بات دل نہیں مانتا۔ دل کہتا ہے کہ انصاف قانون سے ہار گیا ہے۔ میں کسی بھی قیمت پر سزائے موت کے حق میں نہیں لیکن مستوئی سوچ کی بیخ کنی انتہائی ضروری ہے اور پنچایتوں میں بیٹھ کر انصاف کرنے والوں کو بھی یہ پیغام ملنا چاہیے کہ وہ بھی جرم کے یکساں شریک اور یکساں تعزیر کے لائق ہیں۔
اگر جرم نہیں ہوا تو ایک کو بھی سزا کیوں؟ اور اس پر چپ رہنے والوں کو تو اپنی غلطی کا احساس تب ہو گا جب انھیں خود اسی سے گذرنا پڑے گا اور گذرنا تو پڑے گا۔
دو دن ہو چکے ہیں اور میں اب تک اس کیفیت میں ہوں کہ مختاراں ہونے سے باہر نہیں آ پا رہا۔ میں خود کو بے بس، تھکا ہوا، ہارا ہوا، تذلیل کا روندا ہوا اور شرم کا مارا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔
مختاراں نے تو کہہ دیا ہے کہ ’سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے تو اب کون سی عدالت رہتی ہے۔ اب صرف اللہ کی عدالت ہے‘۔
میں بھی ڈرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہاں صرف خدا ہی رہ گیا ہے جو انصاف سے انصاف کرتا ہے، جو منصفوں کا منصف اور طاقتوروں کا طاقتور ہے۔
Advertisements

No comments:

Post a Comment