Thursday 24 May 2018

GEN. PATREAS AFGHAN STRATEGIES WERE BLUNDERS Posted on May 28, 2011


ORIGINAL Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/05/28/gen-patreas-afghan-strategies-were-blunders/

GEN. PATREAS AFGHAN STRATEGIES WERE BLUNDERS

GEN. PATREAS AFGHAN STRATEGIES WERE BLUNDERS
(May 28, 2011)
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2011/05/110526_guardian_afghan_a.shtml
15:04 GMT 20:04 PST, جمعرات 26 مئ 2011
’امریکی جنگی حکمت عملی انتہائی غلط تھی‘
ہر وہ جنرل جو پشتونوں کی ہلاکت کے بارے میں شیخی مارتا ہے اسے اپنے آپ پر شرمندہ ہونا چاہیے: سابق برطانوی سفیر
افغانستان میں سابق برطانوی سفیر سر شررڈ کوپر کولز نے کہا ہے کہ امریکی جنرل پٹریئس کی افغانستان کی جنگ کی حکمت عملی انتہائی غلط اور نقصان دہ تھی۔
برطانیہ کے اخبار گارڈین میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق سر شررڈ نے جو افغانستان اور پاکستان میں برطانیہ کے خصوصی ایلچی بھی رہ چکے ہیں کہا ہے کہ امریکی فوج کے کمانڈر نے افغانستان میں طالبان کی ہلاکتوں کے بارے میں جو دعوے کیے انہیں ’اپنے آپ پر شرمندہ ہونا چاہیے‘۔
سابق برطانوی سفیر نے کہا کہ ’جنرل پٹریئس نے تشدد میں اضافہ کیا، طالبان کمانڈروں کو ہلاک کرنے کے لیے امریکی، برطانوی، آسٹریلوی اور ولندیزی فوج کے خصوصی دستوں کے حملوں کو تین گنا بڑھا دیا اور فوج کی طرف سے طالبان کی ہلاکتوں کے بارے میں افسوسناک حد تک شیخی ماری ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار کا یہ استعمال ویتنام جنگ کی یاد دلاتا ہے۔
’یہ انتہائی غلط ہے اور دیرپا سیاسی حل کے لیے سود مند نہیں۔‘
جنرل پٹریئس عنقریب افغانستان سے سے فارغ ہو کر سی آئی اے کے سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے امریکہ روانہ ہو جائیں گے۔ انہوں نے گزشتہ سال جون میں افغانستان میں غیر ملکی افواج کی کمانڈ سنبھالنے کے بعد طالبان کمانڈروں کے خلاف خصوصی دستوں اور ڈرون حملوں میں اضافہ کر دیا تھا۔
اس سال کے آغاز میں جنرل پٹریئس نے امریکی ایوان نمائندگان کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اوسطاً تین ماہ میں تین سو ساٹھ طالبان مزاحمت کار ہلاک یا گرفتار کر رہے ہیں۔ان کی قیادت میں کام کرنے والے افسران کا کہنا ہے کہ اس حکمت عملی سے طالبان کے حوصلے پست ہو رہے ہیں اور بالآخر ان کے کابل اور مغرب کی شرائط پر امن معاہدے پر دستخط کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
کوپر کولز کا اصرار ہے کہ اس حکمت عملی سے مغرب کے لیے جنگ کا خاتمہ اور مسئلے کا سیاسی حل نکالنا مشکل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل پٹریئس نے طالبان کو بہت نقصان پہنچایا اور ان کے مطابق انہیں یقین ہے کہ کئی طالبان اب بات چیت پر بھی پہلے سے زیادہ آمادہ ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس ساتھ ہی ہر ایک پشتون کی ہلاکت پر دس پشتون اس کا بدلہ لینے کا عہد کریں گا۔
سابق برطانوی سفیر نے کہا کہ ہر وہ جنرل جو پشتونوں کی ہلاکت کے بارے میں شیخی مارتا ہے اسے اپنے آپ پر شرمندہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ یہ افسوسناک بات ہے کہ جنرل پٹریئس نے حیرانکن طور پر مزاحمتکاری سے نمٹنے کے اپنے فیلڈ مینویل میں دیے گئے اصولوں سے انحراف کیا۔
سر شررڈ نے جنرل پٹریئس کے مقابلے میں ان کے پیش رو جنرل سٹینلے مککرسٹل کی تعریف کی جن کی حکمت عملی کا مرکزی نقطہ افغان شہریوں کی جان کا تحفظ تھا چاہے اس کے لیے انہیں طالبان کی تلاش میں احتیاط ہی کیوں نہ برتنا پڑتی۔
سر شررڈ نے بحیثیت خصوصی ایلچی اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کے ساتھ مل کر اپنی کوششیں اس بات پر مرکوز رکھیں کہ اوباما انتظامیہ کو سیاسی حل اور طالبان سے بات چیت پر آمادہ کیا جائے۔
کچھ اطلاعات کے مطابق امریکہ نے طالبان سے ایسے رابطوں کا آغاز کیا ہے۔ تاہم برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی ایلچی مارک گروسمین کو بات چیت کے آغاز پر بھی بات کرنے کے لیے کوئی معتبر طالبان رہنما نہیں مل رہا۔
زیادہ تر حاضر سروس یورپی اور برطانوی حکام جنرل پٹریئس کی تنقید میں سر شررڈ کی حد تک جانے پر تیار نہیں۔ زیادہ تر کی دلیل یہ ہے کہ طالبان کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے کہ سیاسی حل ان کے اپنے مفاد میں ہے انہیں مسلسل فوجی دباؤ میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
تاہم برطانوی دارالحکومت میں بے چینی بڑھ رہی ہے کہ امریکی صدر اوباما اور امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے احکامات کے برعکس فوجی کارروائی کو فوقیت مل رہی ہے۔
ایک اہلکار کے مطابق امریکی انتظامیہ میں مختلف حلقے مختلف اطراف میں کھینچ رہے ہیں۔ ’لیکن جب تک کابل میں جنرل پٹریئس موجود ہیں عسکری حل کو ہی ترجیح دی جائے گی۔‘
طالبان تحریک سے بات چیت شروع کرنے کے لیے کئی بار خفیہ کوششیں کی گئی ہیں لیکن ان پر زیادہ پیشرفت نہیں ہو سکی۔ سی آئی اے کے بن لادن یونٹ کے سابق سربراہ مائیکل شوئر نے سوال اٹھایا کہ ’وہ کیوں مذاکرات کریں گے؟‘ ’وہ جیت رہے ہیں۔ اسلامی دنیا میں اب اسامہ بن لادن سے رابطوں کی وجہ سے انہیں دور بھی نہیں رکھا جا رہا۔ کوئی یہ بالادستی کیوں گنوائے گا؟‘
لیکن بن لادن کے بارے میں ایک نئی کتاب کے مصنف شوئر نے کہا کہ جنرل پٹریئس کی عسکری حکمت عملی کی کامیابی کے بھی زیادہ امکان نہیں۔ ’سوویٹ فوج نے دس سال تک یہ کوشش کی، اور وہ ہم سے بہت زیادہ بے رحم اور جارح تھے اور انہیں بھی کامیابی نہیں ملی تھی۔‘
Advertisements
Report this ad

No comments:

Post a Comment