ORIGNAL Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/05/18/who-is-abusuhaib-almalki/
WHO IS ABUSUHAIB ALMALKI?
WHO IS ABUSUHAIB ALMALKI?
(May 18, 2011)
(May 18, 2011)
This is for Action Research Forum rendering services for promotion of knowledge
ابوصہیب المکی کون؟
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
کراچی میں سکیورٹی حکام نے بتایا ہے کہ محمد علی المعروف ابو صہیب مالکی کو مئی کے پہلے ہفتے میں گلشن اقبال کے علاقے سے گرفتار کیا گیا جہاں اس نے رہائش اختیار کی ہوئی تھی۔
گلشن اقبال کا شمار شہر کی گنجان آبادی والے علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ حکام کے مطابق ابو صہیب کی نشاندھی پر گلشن حدید سے ایک سیٹلائیٹ فون اور ٹریکنگ ڈیوائس بھی برآمد کی گئی ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ ابو صہیب کراچی کے علاوہ ایبٹ آباد، فیصل آباد اور پشاور میں رہا ہے اور گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ تیزی کے ساتھ اپنے ٹھکانے تبدیل کرتا رہتا تھا۔
ابو صہیب پشتو زبان بولنا بھی جانتا ہے سیکیورٹی حکام کے مطابق پشاور میں ایک فیکٹری میں ملازمت کے دوران اس نے پشتو زبان سیکھی ہے۔
پاکستان فوج نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ ابو صہیب القاعدہ میں کس سطح کا رہنما ہے جبکہ امریکہ کو مطلوب فہرست میں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ محمد علی المعروف ابو صہیب مالکی پاکستان اور افغان سرحد پر القاعدہ قیادت کی نقل و حرکت کی نگرانی کرتا تھا۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ ابو صہیب رمزی بن شیبا کا قریبی ساتھی ہے اور اس کا شمار ایمن الزہراوی کے قریبی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ رمزی بن شیبا کو دو ہزار دو کو کراچی سے ہی گرفتار کیا گیا تھا۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے رد عمل کے لیے ممکنہ اہداف کے بارے میں بھی ابو صہیب سے معلومات ملی ہیں اور اسی بنیاد پر رحمان ملک نے کہا ہے کہ کراچی میں سعودی عرب کے سفارتکار کے قتل میں القاعدہ ملوث ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ ابو صہیب رمزی بن شیبا کا قریبی ساتھی ہے اور اس کا شمار ایمن الزہراوی کے قریبی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ رمزی بن شیبا کو دو ہزار دو کو کراچی سے ہی گرفتار کیا گیا تھا۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے رد عمل کے لیے ممکنہ اہداف کے بارے میں بھی ابو صہیب سے معلومات ملی ہیں اور اسی بنیاد پر رحمان ملک نے کہا ہے کہ کراچی میں سعودی عرب کے سفارتکار کے قتل میں القاعدہ ملوث ہے۔
مصطفیٰ ابو یزید کی ہلاکت کے بعد محمد علی ابو صہیب کا شمار القاعدہ کے اہم آپریشنل کمانڈروں میں کیا جاتا تھا،ان کا تعلق یمن سے ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کے درمیان پیغام رسانی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ ابو صہیب کے پاس کئی پاسپورٹ موجود ہیں جن پر وہ پاکستان سے باہر بھی سفر کرتا رہا ہے۔ وہ عرب ممالک سے نوجوانوں کو القاعدہ کی جانب راغب کرنے کے لیے بھی سرگرم رہا ہے۔
Advertisements
No comments:
Post a Comment