ACTIION RESEARCH FORUM: COMPARING JINNAH MEMOIRS WITH GHAIB;
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے، وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا؟‘
GHALIB-E-KHASTA:
غالب کی دلی میں اردو کی حالتِ زار: JINNAH
PORTRAIT IN JINNAH MOTHERLAND http://b4gen.blogspot.com/2017/12/ghalib-e-khasta.html
**** Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-44251329
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے، وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا؟‘
’غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں، روئیے زار
زار کیا؟ کیجیے ہائے ہائے کیوں؟‘
مہدی مجروح کا یہ مصرعہ ۔۔ ’گنجِ معنی ہے تہہِ خاک
GHALIB-E-KHASTA:
غالب کی دلی میں اردو کی حالتِ زار: JINNAH
PORTRAIT IN JINNAH MOTHERLAND http://b4gen.blogspot.com/2017/12/ghalib-e-khasta.html
**** Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-44251329
انڈین انتخابات میں جناح کی تصویر بمقابلہ گنا!
اگر بانیِ پاکستان محمد علی جناح نہ ہوتے، یا ہوتے لیکن بانیِ پاکستان نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟
شاید پاکستان نہ بنتا، اور اگر پاکستان نہ بنتا تو ظاہر ہے پھر بنگلہ دیش بھی نہ بنتا اور تینوں ملک متحد ہی ہوتے اور ہو سکتا ہے کہ ان کی آبادیاں ایک ساتھ ہی مل جل کر رہ رہی ہوتیں۔
پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جناح کی تصویر ہونے یا نہ ہونے کی کسی کو پروا نہ ہوتی۔ یونیورسٹی کے یونین ہال میں صرف رنگ روغن کے وقت باقی دوسرے رہنماؤں کی طرح ان کی تصویر بھی اتاری جاتی اور صفائی کے بعد دوبارہ لگا دی جاتی۔
اسی بارے میں مزید پڑھیے
لال کرشن اڈوانی کراچی سے ہنوستان نہ آئے ہوتے، آئے بھی ہوتے تو انھوں نے جناح کی تعریف نہ کی ہوتی اور نتیجے میں انھیں بی جے پی کی قیادت سے دست بردار نہ ہونا پڑتا اور اگر ایسا ہوا ہوتا تو شاید 2014 میں نریندر مودی نہیں اڈوانی وزیر اعظم کے عہدے کے لیے بی جے پی کے امیدوار ہوتے!
اس بات کو گھسیٹنا چاہیں تو اور بہت گھسیٹا جا سکتا ہے لیکن مختصر یہ کہ کافی کچھ مختلف ہوسکتا تھا۔ لیکن جناح کے انتقال کو 70 سال گزر چکےہیں، یہ بات پرانی ہوگئی ہے اور اب سچ یہ ہے کہ انڈیا میں جناح کا ذکر صرف بی جے پی اور اس کی اتحادی تنظیموں کے رہنما ہی زیادہ کرتے ہیں۔
آج کل خاص طور پر انتخابات کے دوران جناح کافی ڈیمانڈ میں ر ہے ہیں۔
جنوبی ریاست کرناٹک کے الیکشن میں ان کا ذکر رہا اوراب مغربی اتر پردیش کے کیرانہ پارلیمانی حلقے کے ضمنی انتخاب میں بھی ہو رہا ہے۔
ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کے لیے یہ الیکشن انتہائی اہم ہے کیونکہ آئندہ برس کے پارلیمانی انتخابات سے قبل اس الیکشن سے ووٹروں کا موڈ معلوم ہو گا۔
آدتیہ ناتھ طاقتور رہنما ہیں لیکن چند ماہ قبل بی جے پی گورکھپور سے لوک سبھا کی وہ سیٹ بھی ہار گئی تھی جو خود آدتیہ ناتھ نے ہی خالی کی تھی۔ اس لیے کیرانہ کا الیکشن بہت اہم ہو گیا ہے۔
کیرانہ میں کسانوں کی بڑی تعداد ہے اس لیے مقامی لوگوں کی دلچسپی اپنی فصل میں زیادہ ہے۔ وہاں گنے کی فصل زیادہ ہوتی ہے اور کسان پریشان ہیں کیونکہ چینی مِلوں میں ان کے بقایاجات کی ادائیگی رکی ہوئی ہے۔ اس لیے مقامی لوگوں نے یہ نعرہ دیا ہے کہ 'اٹھ گیا گنا، دب گیا جناح!' ( یہاں جناح کی تصویر نہیں گنے کی ادائیگی کا مسئلہ زیادہ اہم ہے)
کیرانہ میں کسانوں کی پارٹی راشٹریہ لوک دل نے ایک خاتون مسلمان امیدوار کو میدان میں اتارا ہے جنھیں براہ راست یا بالواسطہ طور پر حزب اختلاف کی سبھی بڑی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔
مقابلے پر بی جے پی کی امیدوار ہیں جن کے والد حکم سنگھ کے انتقال سے یہ نشست خالی ہوئی تھی۔ 2014 کے پارلیمانی الیکشن سے پہلے یہاں ہندو مسلم فساد ہوا تھا، اور بی جے پی کو الیکشن میں فائدے کے لیے مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام کا سامنا رہا تھا، اس لیے سب کی زبان پر ایک ہی سوال ہے:
کیا اس الیکشن میں ہندو ووٹر مسلمان امیدوار کو ووٹ دیں گے؟
اس پس منظر میں کیرانہ میں پھر جناح کو یاد کیا جا رہا ہے۔ راشٹریہ لوک دل کے رہنما جینت چودھری نے کہا کہ 'بی جے پی کو کسانوں کے مسائل سے زیادہ جناح کی تصویر کی فکر ہے، آپ ان سے کچھ اور امید بھی نہیں کر سکتے۔'
جواب میں وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ انھیں جناح سے زیادہ گنے کی کاشت کرنے والوں کی فکر ہے، اور کسانوں کے بقایہ جات ادا کیے جائیں گے۔
انھوں نے کہا: 'گنا ہماری ترجیح ہے لیکن ہم جناح کی تصویر بھی نہیں لگنے دیں گے۔'
حزب اختلاف کی جماعتیں، جو کرناٹک کے الیکشن کے بعد متحد ہونے کی کوشش کر رہی ہیں، یہ امید کر رہی ہوں گی کہ اس الیکشن میں جناح پر گنا بھاری پڑ جائے!
No comments:
Post a Comment