Source: https://www.bbc.com/urdu/science-44224775
آجکل دنیا بھر بیماریاں پھیلانے والے مہلک ترین وائرس
وسطی امریکہ میں ایبولا کی وبا پھیلنے کے بعد نیپاہ نامی ایک اور وبائی جرثومہ جنوبی انڈیا میں لوگوں کو ہلاک کر رہا ہے اور یہ دونوں بڑی وبا بن سکتے ہیں۔
یہ بیماریاں لوگوں کی صحت کے لیے بڑا خطرہ ہیں جو عالمگیر وبا بن کر پھیل سکتی ہیں اور سائنس دانوں کے پاس ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ تو ادویات ہیں اور نہ ہی کوئی مدافعتی ٹیکہ ہے۔
نیپاہ اور ایبولا کے ساتھ ساتھ تنظیم کی اس فہرست میں دیگر آٹھ بیماریاں شامل ہیں جو مویشیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
ان کی علامات میں بخار، متلی اور سر درد کے علاوہ دماغ کی سوزش شامل ہیں۔
انسانوں یا جانوروں کو اس وائرس سے بچانے کے لیے کوئی مدافعتی ٹیکہ دستیاب نہیں ہے اور 70 فیصد کیسوں میں موت کا خطرہ ہوتا ہے۔
یہ وائرس 1998 میں سب سے پہلے ملائیشیا کے ایک قصبے نیپاہ میں سؤروں میں پایا گیا تھا اور وہیں سے اس کا نام نیپاہ پڑ گیا۔
بتایا جا رہا ہے کہ جانوروں سے یہ وائرس تقریباً تین سو لوگوں میں پھیل چکا ہے اور اس وبا میں ایک سو سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
نیپا وائرس چمگادڑوں سے پھیلنے والی بیماری ہے اور آسٹریلیا میں سب سے پہلے پایا جانے والا ہینڈرا وائرس بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
یہ وائرس بھی چمگادڑوں سے پھیلتا ہے اور انسانوں اور گھوڑوں کے لیے خطرناک ہے۔ یہ وائرس 1994 میں برزبین کے مضافاتی علاقے ہینڈرا میں گھوڑوں کے اصطبل میں پھیلا تھا۔
اس کے بعد 70 سے زیادہ گھوڑے اور ان سے رابطے میں آنے والے سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
کرائمین کونگو ہیمو رجک فیور یعنی سی سی ایج ایف بری طرح سے انسانوں میں پھیل سکتا ہے اور اس میں اموات کا خدشہ 40 فیصد ہے۔
یہ وائرس 1944 میں کرائمیا میں دریافت ہوا اور بعد میں کانگو میں بھی پایا گیا۔ اس کے علاوہ یہ وائرس پورے افریقہ، بلقان، مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا کے کچھ دیگر علاقوں میں بھی پایا جا سکتا ہے۔
اس کی علامات اچانک سر درد، تیز بخار، کمر اور جوڑوں میں درد، پیٹ میں درد اور متلی شامل ہے۔
یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں پھیلتا ہے اور متاثرہ مریض کے خون سے دوسرے انسانوں میں پھیل سکتا ہے۔ اس میں بھی انسانوں یا جانوروں کے علاج کے لیے کوئی دوا یا ٹیکہ موجود نہیں ہے۔
ایبولا وائرس
خیال ہے کہ یہ وائرس بھی پھلوں کا رس چوسنے والی چمگادڑوں سے پھیلتا ہے جو کانگو کے ایبولا دریا کے نزدیک پہلی بار پایا گیا اور یہیں سے اس کا نام پڑ گیا۔ یہ وائرس بھی جانوروں سے انسانوں اور انسانوں سے دوسرے انسانوں میں پھیل سکتا ہے۔
یہ وائرس زخم کے ذریعے، منہ، ناک، خون، متلی سے بھی پھیل سکتا ہے۔
اس میں شرح اموات 50 فیصد ہے 2014 اور 2016 میں مغربی افریقہ میں ایبولا کی وبا پھیلنے سے 11 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
وائرس کے سبب بخار، تھکاوٹ، بدہضمی، گردوں اور جگر میں خرابی اور کچھ معاملات میں ناک، منہ یا کان سے خون جاری ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
مربرگ وائرس ایبولا کی ہی طرح کا وائرس ہے۔
یہ متاثرہ شخص کے جسم سے نکلنے والے مادے سے پھیل سکتا ہے۔
اس وائرس کے سبب آٹھ سے نو دن میں موت واقع ہو سکتی ہے یہ وائرس 1967 میں جرمنی کے قصبے باربرگ سے نکلا تھا۔
سارس
یہ سانس کی بیماری ہے۔ سائنس وانوں کا خیال ہے کہ یہ بیماری خاص قسم کی بلیوں سے نکلی ہے جو جنوبی چین میں کھائی جاتی ہیں۔ اس وائرس کا تعلق بھی چمگادڑوں سے ہے۔
سارس کی ایک بڑی وبا 2004 اور 2002 میں پھیلی تھی۔ یہ وائرس کھانسی اور چھینک سے ہوا کے ذریعے پھیلتا ہے۔
ایم ای آر ایس وائرس
یہ بھی سارس کی قسم کے وائرس سے پھیلتی ہے اور یہ پہلی بار 2012 میں سعودی عرب میں سامنے آئی تھی۔ اس وائرس سے متاثرہ 35 فیصد افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ بیماری اونٹوں سے پھیلی تھی لیکن انسانوں میں یہ کیسے پہنچی، ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
رِفٹ ویلی فیور
یہ مچھروں اور خون پینے والی مکھیوں سے جانوروں میں پھیلتا ہے
یہ انسانوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے اس میں زکام کی کیفیت ہوتی ہے اور خطرناک صورتِ حال میں جسم کے اہم اعضا ناکارہ ہو سکتے ہیں۔
زیکا وائرس
یہ وائرس پہلے تو ایک متاثرہ مچھر سے انسانوں میں داخل ہوا تھا لیکن اس کے بعد جنسی تعلق کے سبب انسانوں سے انسانوں میں پھیل سکتا ہے۔
اس وائرس کے سبب متاثرہ نوزائیدہ بچوں کے سر معمول سے چھوٹے ہوتے ہیں۔
عالمی تنظیمِ صحت کا کہنا ہے کہ زیکا وائرس سے بالغوں میں دماغی بیماری کا خطرہ ہوتا ہے جس سے لوگ مفلوج ہو سکتے ہیں۔
ابھی تک اس وائرس کے خلاف کوئی ٹیکہ موجود نہیں ہے جو یوگینڈا میں زیکا کے جنگل میں پایا گیا تھا۔
لاسا بخار وائرس
یہ متاثرہ چوہوں کے پیشاب اور پاخانے سے پھیلتا ہے اور متاثرہ انسان کے پیشاب، پاخانے یا دیگر جسمانی مادے سے انسانوں میں پھیلتا ہے۔ اس کی علامتیں بخار، سر درد اور کمزوری محسوس ہونا ہے۔
یہ وائرس 1969 میں نائجیریا کے علاقے لاسا میں پہلی بار سامنے آیا تھا۔
No comments:
Post a Comment