Thursday 24 May 2018

SCIENCE: MOST DANGEROUS VIRUS OF HUMNAN LIFE


Source:  https://www.bbc.com/urdu/science-44224775

آجکل دنیا بھر بیماریاں پھیلانے والے مہلک ترین وائرس

نیپاہ وائرس سے کیرالہ میں خوف کا ماحول

نیپاہ وائرس سے کیرالہ میں خوف کا ماحول
وسطی امریکہ میں ایبولا کی وبا پھیلنے کے بعد نیپاہ نامی ایک اور وبائی جرثومہ جنوبی انڈیا میں لوگوں کو ہلاک کر رہا ہے اور یہ دونوں بڑی وبا بن سکتے ہیں۔
یہ بیماریاں لوگوں کی صحت کے لیے بڑا خطرہ ہیں جو عالمگیر وبا بن کر پھیل سکتی ہیں اور سائنس دانوں کے پاس ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ تو ادویات ہیں اور نہ ہی کوئی مدافعتی ٹیکہ ہے۔
نیپاہ اور ایبولا کے ساتھ ساتھ تنظیم کی اس فہرست میں دیگر آٹھ بیماریاں شامل ہیں جو مویشیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
ان کی علامات میں بخار، متلی اور سر درد کے علاوہ دماغ کی سوزش شامل ہیں۔
Two Indian men wear face masksتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاب تک جنوبی ریاست کیرالہ میں کم از کم دس افراد نیپا وائرس کا نشانہ بن کر ہلاک ہو چکے ہیں
انسانوں یا جانوروں کو اس وائرس سے بچانے کے لیے کوئی مدافعتی ٹیکہ دستیاب نہیں ہے اور 70 فیصد کیسوں میں موت کا خطرہ ہوتا ہے۔
یہ وائرس 1998 میں سب سے پہلے ملائیشیا کے ایک قصبے نیپاہ میں سؤروں میں پایا گیا تھا اور وہیں سے اس کا نام نیپاہ پڑ گیا۔
بتایا جا رہا ہے کہ جانوروں سے یہ وائرس تقریباً تین سو لوگوں میں پھیل چکا ہے اور اس وبا میں ایک سو سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
نیپا وائرس چمگادڑوں سے پھیلنے والی بیماری ہے اور آسٹریلیا میں سب سے پہلے پایا جانے والا ہینڈرا وائرس بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
گھوڑاتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionآسٹریلیا میں ہینڈرہ وائرس سے انسان اور گھوڑے دونوں ہلاک ہوئے تھے۔
یہ وائرس بھی چمگادڑوں سے پھیلتا ہے اور انسانوں اور گھوڑوں کے لیے خطرناک ہے۔ یہ وائرس 1994 میں برزبین کے مضافاتی علاقے ہینڈرا میں گھوڑوں کے اصطبل میں پھیلا تھا۔
اس کے بعد 70 سے زیادہ گھوڑے اور ان سے رابطے میں آنے والے سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
کرائمین کونگو ہیمو رجک فیور یعنی سی سی ایج ایف بری طرح سے انسانوں میں پھیل سکتا ہے اور اس میں اموات کا خدشہ 40 فیصد ہے۔
یہ وائرس 1944 میں کرائمیا میں دریافت ہوا اور بعد میں کانگو میں بھی پایا گیا۔ اس کے علاوہ یہ وائرس پورے افریقہ، بلقان، مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا کے کچھ دیگر علاقوں میں بھی پایا جا سکتا ہے۔
اس کی علامات اچانک سر درد، تیز بخار، کمر اور جوڑوں میں درد، پیٹ میں درد اور متلی شامل ہے۔
وائرس سے بچاؤ کا سپرےتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionمویشیوں کے رہنے کی جگہ صاف ستھری رکھ کر اس وائرس سے بچا جا سکتا ہے
یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں پھیلتا ہے اور متاثرہ مریض کے خون سے دوسرے انسانوں میں پھیل سکتا ہے۔ اس میں بھی انسانوں یا جانوروں کے علاج کے لیے کوئی دوا یا ٹیکہ موجود نہیں ہے۔

ایبولا وائرس

خیال ہے کہ یہ وائرس بھی پھلوں کا رس چوسنے والی چمگادڑوں سے پھیلتا ہے جو کانگو کے ایبولا دریا کے نزدیک پہلی بار پایا گیا اور یہیں سے اس کا نام پڑ گیا۔ یہ وائرس بھی جانوروں سے انسانوں اور انسانوں سے دوسرے انسانوں میں پھیل سکتا ہے۔
یہ وائرس زخم کے ذریعے، منہ، ناک، خون، متلی سے بھی پھیل سکتا ہے۔
متاثرہ لوگتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاس وائرس کے شکار لوگوں کو تنہائی میں رکھا جاتا ہے
اس میں شرح اموات 50 فیصد ہے 2014 اور 2016 میں مغربی افریقہ میں ایبولا کی وبا پھیلنے سے 11 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
وائرس کے سبب بخار، تھکاوٹ، بدہضمی، گردوں اور جگر میں خرابی اور کچھ معاملات میں ناک، منہ یا کان سے خون جاری ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
مربرگ وائرس ایبولا کی ہی طرح کا وائرس ہے۔
یہ متاثرہ شخص کے جسم سے نکلنے والے مادے سے پھیل سکتا ہے۔
انگولہ کی ایک عورت اپنے بچے کا معائنہ کرانے ہسپتال پہنچیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption2005 میں انگولہ میں اس بیماری سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے
اس وائرس کے سبب آٹھ سے نو دن میں موت واقع ہو سکتی ہے یہ وائرس 1967 میں جرمنی کے قصبے باربرگ سے نکلا تھا۔

سارس

یہ سانس کی بیماری ہے۔ سائنس وانوں کا خیال ہے کہ یہ بیماری خاص قسم کی بلیوں سے نکلی ہے جو جنوبی چین میں کھائی جاتی ہیں۔ اس وائرس کا تعلق بھی چمگادڑوں سے ہے۔
سارس کی ایک بڑی وبا 2004 اور 2002 میں پھیلی تھی۔ یہ وائرس کھانسی اور چھینک سے ہوا کے ذریعے پھیلتا ہے۔
ہانگ کانگ کے لوگ سارس سے بچنے کے لیے ماسک پہنتے تھےتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاپریل 2003 میں ہانگ کانگ سارس کے شکنجے میں تھا۔

ایم ای آر ایس وائرس

یہ بھی سارس کی قسم کے وائرس سے پھیلتی ہے اور یہ پہلی بار 2012 میں سعودی عرب میں سامنے آئی تھی۔ اس وائرس سے متاثرہ 35 فیصد افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ بیماری اونٹوں سے پھیلی تھی لیکن انسانوں میں یہ کیسے پہنچی، ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
سعودی شخصتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionمرس اونٹوں سے پھیلنے والا فلیو تھا۔

رِفٹ ویلی فیور

یہ مچھروں اور خون پینے والی مکھیوں سے جانوروں میں پھیلتا ہے
یہ انسانوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے اس میں زکام کی کیفیت ہوتی ہے اور خطرناک صورتِ حال میں جسم کے اہم اعضا ناکارہ ہو سکتے ہیں۔
وائرستصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionیہ وائرس مچھروں سے دورے جانوروں اور پھر انسانوں میں پھیلتا تھا

زیکا وائرس

یہ وائرس پہلے تو ایک متاثرہ مچھر سے انسانوں میں داخل ہوا تھا لیکن اس کے بعد جنسی تعلق کے سبب انسانوں سے انسانوں میں پھیل سکتا ہے۔
اس وائرس کے سبب متاثرہ نوزائیدہ بچوں کے سر معمول سے چھوٹے ہوتے ہیں۔
عالمی تنظیمِ صحت کا کہنا ہے کہ زیکا وائرس سے بالغوں میں دماغی بیماری کا خطرہ ہوتا ہے جس سے لوگ مفلوج ہو سکتے ہیں۔
ابھی تک اس وائرس کے خلاف کوئی ٹیکہ موجود نہیں ہے جو یوگینڈا میں زیکا کے جنگل میں پایا گیا تھا۔
ذیکا سے متاثرہ بچہتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionحاملہ خواتین کو ان علاقوں میں سفر نہ کرنے کا ہدایت کی گئی جہاں ذیکا وائرس پھیلا ہوا تھا

لاسا بخار وائرس

یہ متاثرہ چوہوں کے پیشاب اور پاخانے سے پھیلتا ہے اور متاثرہ انسان کے پیشاب، پاخانے یا دیگر جسمانی مادے سے انسانوں میں پھیلتا ہے۔ اس کی علامتیں بخار، سر درد اور کمزوری محسوس ہونا ہے۔
چوہوں کے سیمپلتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionلاسا وائرس چوہوں سے پھیلتا ہے
یہ وائرس 1969 میں نائجیریا کے علاقے لاسا میں پہلی بار سامنے آیا تھا۔

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment