Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-44178822
انڈیا میں مسلمانوں سے مذہبی تفریق کا قانون پاس ہو سکے گا؟
انڈیا کی مشرقی ریاست آسام میں گذشتہ ہفتے کئی تنظیموں نے مرکزی حکومت کے ایک مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
شہریت ترمیمی بل جولائی سنہ 2016 میں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا جس کے تحت تین پڑوسی ملکوں سے آنے والے مذہبی اقلیتی تارکین وطن کو انڈین شہریت دینے کی تجویز ہے۔
لیکن اس کی متنازع نوعیت کے سبب اسے مزید غور خوض کے لیے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔ اس ترمیمی بل میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کا کوئی ہندو، بدھسٹ، جین، سکھ، پارسی اور عیسائی اگر گذشتہ 14 برسوں میں چھ برس کے لیے انڈیا میں رہا ہے تو وہ شہریت کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔
ترمیم کے ذریعے ان چھ مذاہب کے لوگوں کو ملک بدر کرنے کی شق بھی ختم کر نے کی تجویز ہے۔ اس ترمیمی بل کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ متعدد سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کسی گروہ سے تفریق نہیں برتی جا سکتی۔
اس بارے میں مزید پڑھیے
بی جے پی کے ایک رکن پالیمان کی سربراہی میں 16 رکنی پارلیمانی قائمہ کمیٹی نے ترمییمی شہریت بل کے بارے میں عوا م کی رائے جاننے کے لیے گذشتہ ہفتے آسام اور میگھالیہ کا دورہ کیا۔
بعض مقامات پر لوگوں نے اس مجوزہ بل کی حمایت کی۔ لیکن ریاست کی حکمراں جماعت بی جے پی کی اتحادی آسام گن پریشد اور آل آسام سٹوڈنٹ یونین سمیت بہت سی تنظیموں نے اس کی مخالفت میں مظاہرے کیے اور کینڈل لائٹ جلوس نکالا۔ انھیں خدشہ ہے کہ اس سے پڑوسی ممالک سے لاکھوں ہندو ان کی ریاست میں آ کر آباد ہونے کی کوشش کریں گے۔
مخالفین کا خیال ہے کہ اس بل سے ریاست میں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کا معاملہ اور پیچیدہ ہو جائے گا۔ سنہ 1985 میں آسام اور مرکزی حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس کی رو سے مارچ سنہ 1971 کے بعد ریاست میں آنے والے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو غیر ملکی قرار دے کر ریاست سے نکال دیا جائے گا۔
1971 کے بعد لاکھوں بنگلہ دیشی ہندو ریاست میں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ بعض جائزوں کے مطابق 1971 کے بعد تقریباً 20 لاکھ بنگلہ دیشی ہندو غیر قانونی طور پر آسام میں آ کر مقیم ہوئے۔
مقامی قبائلی آبادی اور آسامی نژاد لوگوں کا خیال ہے کہ اگر یہ بل قانون بن گیا تو بنگلہ دیش سے لاکھوں ہندو ریاست میں آ کر آباد ہونے کی کوشش کریں گے اور ریاست کی اصل آبادی اقلیت میں بدل جائے گی۔
اس بل کو پیش کرنے کا مودی حکومت کامقصد یہ ہے کہ اس کے تحت ریاست کے مبینہ لاکھوں غیر قانونی ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جا سکے۔ آسام میں بنگالی ہندوؤں سے زیادہ بنگالی نسل کے مسلمان آباد ہیں۔
ان میں مختلف اطلاعا ت کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن بھی ہیں۔ اس وقت ریاست میں تمام شہریوں کے کاغذات کی جانچ کا عمل چل رہا ہے۔ ہر شہری کو اپنی شہریت کے ثبوت میں کئی طرح کے دستاویزات پیش کرنی ہیں۔
نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز یا این آر سی کے ادارے نے ابھی تک کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیا ہے۔
لیکن جو ابتدائی اندازے سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ آسام میں آئندہ مہینے لاکھوں ہندوؤوں کے ساتھ ساتھ ان سے دگنی یا اس سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں بنگالی نژاد مسلم انڈیا کی شہریت سے خارج ہو سکتے ہیں۔
ترمیمی شہریت بل اگر قانون بن جاتا ہے تو اس کے تحت شہریت سے محروم ہونے والے ہندوؤں کو تو انڈین شہریت دی جا سکے گی لیکن مسسلمانوں کو یہ سہولت حاصل نہیں ہو گی کیونکہ انھیں اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے۔
ملک کے سرکردہ اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ 'انڈیا کی شہریت کی بنیاد ان تصورات پر قائم ہے کہ یہ ملک ایک سیکیولر جمہوریت ہے۔
'آزاد انڈیا کے لیے ایک ایسا آئین اختیارکیا گیا جس میں مذہب کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق کو مسترد کیا گیا ہے۔ 2016 کے شہریت کے ترمیمی بل میں انڈیا کو ہندوؤں کا ملک تصور کیا گیا ہے جو انڈین مملکت کے آئینی تصورات کے منافی ہے۔ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کو اس بل کو لازمی طور پر مستر کر دینا چاہیے۔'
اس بل کی مخالفت کرنے والوں کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ میں تو اس کی مخالفت ہو گی ہی، یہ قانون کی کسوٹی پر بھی کھرا نہیں اترے گا۔ ملک کے آئین میں بنیادی حقوق کی دفعہ 14 کے تحت مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر دو مذاہب کے درمیان تفریق نہیں برتی جا سکتی۔
No comments:
Post a Comment