Wednesday, 16 May 2018

IND: GODHRA (GUJRAT JUDGMENT – 01/03/2011


ORIGINAL Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/03/01/godhra-gujrat-judgment-01032011/

GODHRA (GUJRAT JUDGMENT – 01/03/2011

http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2011/03/110301_godhra_verdict_experts_sz.shtml
گودھرا فیصلے پر کئی اہم سوال
گودھرا کے نو سال بعد اکتیس افراد کو انتہائی سخت سزائیں تو سنا دی گئی ہیں لیکن ملک کے کئی سرکردہ مبصرین کا خیال ہے کہ اس کیس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے ہیں۔
گودھرا میں ستائیس فروری دو ہزار دو کی صبح سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے میں آگ لگنے کے سبب انسٹھ ہندو کارسیوک ہلاک ہوگئے تھے۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ ہے کہ یہ ایک منصوبہ بند حملہ تھا۔ اس نے گیارہ افراد کو موت اور بیس کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

ٹرین پر حملے کے بعد گجرات میں مذہبی فسادات بھڑک اٹھے تھے جن میں سینکڑوں کی تعداد میں مسلمان مارے گئے تھے۔ عام تاثر یہ ہے کہ ریاست میں نریندر مودی کی حکومت نے ان فسادات کو روکنے کے لیے خاطر خواہ کارروائی نہیں کی تھی۔

انگریزی روزنامے ہندوستان ٹائمز کے سینیئر صحافی اور کالم نگار پنکج ووہرا کا کہنا ہے ’میں نے گودھرا کے واقعے اور اس کے بعد رونما ہونے والے فسادات کا بہت قریب سے جائزہ لیا تھا کیونکہ ان دونوں میں گہرا تعلق تھا۔ لیکن کئی اہم سوال ایسے ہیں جن کا عدالت کے فیصلےسے جواب نہیں ملتا۔اگر واقعی کوئی سازش تھی تو اصل ملزم مولوی عمر جی کو کیوں بری کر دیا گیا؟ اور بری کیے جانے والے ان تریسٹھ لوگوں کے بارے میں کون جواب دے گا جنہیں اپنی زندگی کے نو سال جیل میں گزارنے پڑے؟‘

اس فیصلے سے قطع نظر میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ گودھرا کے واقعے میں سازش کا پہلو شامل تھا۔ میرے آنجہانی دوست (گجرات کے سابق وزیر داخلہ ہرین پانڈیا) نے مجھے بتایا تھا کہ گجرات بی جے پی کے ہاتھوں سے پھسل رہا تھا اور پارٹی کو ہر سطح پر انتخابی ناکامی کا سامنا تھا۔ کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں، اور پھر گودھرا کا واقعہ ہوا جس کا سیاسی فائدہ اٹھایا گیا۔
پنکج ووہرا

’ ’لیکن اس فیصلے سے قطع نظر میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ گودھرا کے واقعے میں سازش کا پہلو شامل تھا۔ میرے آنجہانی دوست (گجرات کے سابق وزیر داخلہ ہرین پانڈیا) نے مجھے بتایا تھا کہ گجرات بی جے پی کے ہاتھوں سے پھسل رہا تھا اور پارٹی کو ہر سطح پر انتخابی ناکامی کا سامنا تھا۔ کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں، اور پھر گودھرا کا واقعہ ہوا جس کا سیاسی فائدہ اٹھایا گیا‘۔
پنکج ووہرا اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت کے وزیر ریلوے لالو پرساد یادو کے تشکیل کردہ یو سی بنرجی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کئی دلچسپ پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی جن سے سازش کے پہلو کی نفی ہوتی ہے لیکن اس رپورٹ کو مسترد کردیا گیا۔

تجزیہ نگار کلدیپ نیر کا کہنا ہے کہ ’گودھرا کے واقعہ اور گجرات کے فسادات کی جس نااہلی سے تفتیش کی گئی اس سے ہندوستان کے عدالتی نظام کی خامیاں اجاگر ہوتی ہیں اور اس سے شدت پسندوں کو تقویت حاصل ہوگی‘۔
انگریزی اخبار گلف نیوز میں لکھتے ہوئے کلدیپ نیر کہتے ہیں کہ ’مجھے زیادہ فکر سازش کے الزام پر ہے جو بظاہر ثابت ہوگیا ہے۔ اس فیصلے کو اب بی جے پی فسادات کا جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کرے گی‘۔

کلدیپ نیر کا کہنا ہے کہ نہ تو گودھرا کے مسلمانوں کی ہندوؤں سے کوئی دشمنی تھی اور نہ سٹیشن سے روانہ ہونے کے بعد ان کے لیے اس ٹرین تک پہنچنا آسان تھا۔ واقعہ کی تفتیش کرنے والے دونوں کمیشن الگ الگ نتائج پر پہنچے، ایک نے کہا کہ یہ سازش تھی دوسرے کے مطابق آگ ڈبے کے اندر سے اپنے آپ لگی تھی لیکن لگتا یہ ہے کہ سچائی اب بھی سامنے نہیں آئی ہے۔

کالم نگار انل دھرکڑ نے ممبئی پر حملوں کے واحد زندہ بچ جانے والے مجرم اجمل قصاب کے خلاف مقدمے کا موازنہ گودھرا کے معاملے کی شنوائی سے کیا ہے۔ اس کیس میں بھی دو مسلمان ملزمان کو بری کیا گیا تھا۔
قصاب کے مقدمے سے ’بھارتی حکام دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہمارا عدالتی نظام منصفانہ ہے اور دونوں ہندوستانیوں کو بری کیے جانے سے اس پیغام کو تقویت ملتی ہے۔ لیکن گودھرا میں اس کے برعکس ہوا ہے۔ جب سازش کا اصل ملزم ہی بے گناہ ہے تو سازش کیسے ہوسکتی ہے؟‘

انل دھرکڑ بھی کہتے ہیں کہ یہ معاملہ اب بھی پوری طرح الجھا ہوا ہے اور پنکج ووہرا کی طرح ان کی بھی رائے ہے کہ اس فیصلے سے بی جے پی کو ہی فیض پہنچتا ہے

’آپ کس پر یقین کریں۔کیا سچائی آپ کی سیاسی واسبتگیوں کے ساتھ بدلتی ہے؟ کیا عدالت کی کارروائی تعصب سے پاک نہیں ہونی چاہیے؟ ان سوالوں کا جو بھی جواب ہے، ایک بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا: جن تریسٹھ لوگوں کو رہا کیا گیا ہے ان میں سے پچپن کو نو سال تک ضمانت نہیں دی گئی۔۔۔ان کے اس نقصان کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ پولیس، استغاثہ یا عدالت؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’گودھرا کی عدالت نے ملزمان کے اقبالیہ بیانات پر بہت انحصار کیا ہے حالانکہ انہوں نے اپنے بیان واپس لے لیے تھے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم ایک غیر ملکی شہری (اجمل قصاب) کو انصاف دینے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں لیکن اپنے ہی شہریوں کو ” ٹیررآئز” کرنے سے نہیں جھجھکتے‘۔

گودھرا کیس میں ابھی بہت سے عدالتی مراحل باقی ہیں۔ پنکج ووہرا کو امید ہے کہ اعلی عدالتیں ان سوالوں کا جواب ضرور فراہم کریں گی کیونکہ ” سب یہ چاہتے ہیں کہ گودھرا ہو یا باقی گجرات، سب کو انصاف ملنا چاہیے۔”
Advertisements

No comments:

Post a Comment