Source: https://www.bbc.com/urdu/world-44162359
امریکہ نے ابوغریب سے کیا سیکھا؟
جینا ہیسپیل ماضی میں پرتشدد ہتھکنڈے استعمال کرنے کی تردید کر کے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی نئی سربراہ نامزد ہو گئی ہیں۔ لیکن عراق کے ابوغریب قید خانے میں رقم کی گئی ظلم کی داستانوں نے امریکی تاریخ کے اس تاریک ترین باب کے دوران جو بدنما داغ چھوڑے ہیں وہ مٹ نہیں پا رہے ہیں۔
ایک شخص جو اس تشدد کا گواہ ہے اس نے یہ کہانی بیان کی ہے۔
امریکی ریاست پینسلوینیا کے علاقے مارٹن برگ میں پیزا کی دکان کے پارکنگ میں ایک دیو قامت شخص جیرمی سیوٹس اپنی طویل قامتی کو ذرا کم دکھانے کی کوشش میں جھکا جھکا چلتا ہوا آیا۔
اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر وہ میرے برابر میں آ کر کھڑا ہو گیا۔ ہم یہاں باہر کھلے آسمان تلے اس لیے آ کر کھڑے ہوئے ہیں تاکہ ہم ماضی کے ان مظالم پر اس خوف کے بغیر بات کر سکیں کہ کہیں کوئی ہماری آواز نہ سن لے۔
عراق میں ابوغریب کے قید خانے میں ہونے والے مظالم 28 اپریل 2004 میں سامنے آئیں تھیں۔ سیوٹس سمیت کچھ اور فوجیوں کی جانب سے بنائی گئی قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز رویے اور تشدد کی تصاویر امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس پر نشر ہونے کے بعد عالمی انسانی ضمیر پر بوجھ بن گئی تھیں۔
ایک تصویر برہنہ قیدیوں کے ایک ڈھیر کی تھی جنھیں اس صورت میں ایک کے اوپر ڈال کر جنسی حرکات کرنے اور مختلف غیر انسانی انداز اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
ایک تصویر طویل عرصے تک لوگوں کے ذہن پر نقش ہو کر رہی گئی تھی۔ یہ تصویر امریکی خاتون فوجی لینڈی انگلینڈ کی تھی جو ایک قیدی کے گلے میں پٹا ڈال گھسیٹ رہی تھیں۔
ایک اور تصویر جو اس سکینڈل کی سنگینی کو ظاہر کرتی تھی، وہ ایک ایسے قیدی کی تھی جسے ایک بکسے پر کھڑا کیا گیا تھا اور اس نے بجلی کی تاریں تھامی ہوئی تھیں۔
سیوٹس کو اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتنے پر ایک سال کی سزا سنائی گئی۔ ان پر الزامات میں قیدیوں کی تصاویر اترانے اور ان پر تشدد کو روکنے میں ناکامی کے جرائم شامل تھے۔
کار پارک میں ہونے والی گفتگو میں انھوں نے نرم دلی، انسانی ہمدردی اور اچھا رویہ اپنانے کے بارے میں بتایا کہ انھوں نے اس سکینڈل سے کیا سبق سیکھے۔
تیز رفتار گاڑیوں کے شور سے بچنے کے لیے ہم قریبی ریستوران کے ایک خاموش گوشے میں بیٹھ گئے۔ انھوں نے کہا کہ ذاتی طور پر انھوں نے جو سبق سیکھے وہ مجموعی طور پر امریکی قوم نے بھی سیکھے ہیں۔
ابوغریب میں تعینات بہت سے دوسرے فوجیوں کی طرح جو اس سکینڈل میں ملوث پائے گئے، سیوٹس کا تعلق بھی ایک دیہی علاقے سے تھا جہاں نوجوانوں کے لیے بہت کم مواقع ہوتے ہیں۔
سیوٹس پینسلوینیا کے علاقے ہنڈمین میں پلے بڑھے تھے۔ ایک مقامی شخص رابرٹ کلئٹس کے مطابق یہ علاقہ ایک گمنام وادی میں قائم ہے۔
اس شخص نے کہا کہ اس وادی کے ارد گرد دس میل تک موبائل سروس بھی میسر نہیں ہے۔ اس کی مرکزی شاہراہ پر لکڑی سے بھرے ٹرکوں کے گزرنے سے ڈیزل اور لکڑی کے برادے کی بدبو آتی ہے۔
سیوٹس کا پرانا گھر جو ریل کی پٹڑی کے قریب ہے، وہ خالی پڑا ہے اس کی کھڑکیاں تختے لگا کر بند کر دی گئی ہیں اور اس کی دیواریں دھویں سے کالی پڑ گئی ہیں۔
ان کی والدہ فریڈا ایک سٹور میں ملازم ہیں۔ ان کے والد ڈینیئل ویتنام میں دو مرتبہ تعینات رہ چکے ہیں جہاں انھیں بہادری کے دو تمغے بھی ملے تھے۔
ڈینیئل کا گذشتہ برس پھیپھڑوں کے سرطان کی وجہ سے انتقال ہو گیا لیکن خاندان کے افراد نے تعزیت کرنے کے لیے آنے والوں سے کہا کہ وہ پھول خریدنے کر لانے کے بجائے ان کی بیوہ کو نقد رقم دے دیں تاکہ وہ اپنے شوہر کی تدفین کے اخراجات پورے کر سکیں۔
ہائی سکول کے دور میں سیوٹس شائستہ اور دوسروں کی مدد کرنے پر ہمہ وقت تیار رہنے والے نوجوان کے طور پر مشہور تھے۔ کلائٹس کا کہنا تھا 'وہ بڑا مہذب بچہ تھا۔'
انھوں نے مزید کہا کہ اگر سیوٹس سے کوئی کچھ کرنے کا کہتا تھا تو وہ اس کے نتائج کی پروا کیے بغیر ان کی مدد کرنے کو فوراً تیار ہو جاتے تھے۔
کوریائی جنگ میں شرکت کرنے والے 86 سالہ ہرمن رالنگ نے، جو ڈاک خانے میں خطوط چھانٹ رہے تھے، بتایا کہ وہ ایک نفیس نوجوان تھا۔ انھوں نے کہا کہ سیوٹس عراق میں یقیناً احکامات پر عمل درآمد کر رہا ہو گا اور اسے سزا دینا ناانصافی تھی۔
انھوں نے کہا کہ سیوٹس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ’اگر آپ ان کی جگہ ہوتے تو آپ بھی وہی کچھ کرتے جو آپ سے کہا جاتا۔‘ رالنگ نے مجھے گھورتے ہوئے کہا: 'جنگ ایک عذاب ہوتا ہے۔'
سیوٹس کی عمر 38 برس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بچپن سے ہی اپنے والد کی طرح فوجی بننا چاہتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ 18 برس میں ہی وہ فوج میں شامل ہو گئے اور ان کی مہم جوئی شروع ہو گئی تھی۔ وہ آٹھویں ملٹری بریگیڈ میں شامل ہو گئے اور سنہ 2003 میں انھیں عراق بھیج دیا گیا۔
انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے تھے کہ عراق کی جنگ میں وہ ریت کی ایک بڑی بوری ثابت ہوں گے۔
عراق پہنچنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد انھیں بغداد کے ابوغریب کے قید خانے میں تعینات کر دیا گیا جہاں وہ مکینک اور ڈرائیور کے طور پر کام کرنے لگے۔
اس وقت اس قید خانے میں دو ہزار کے قریب مرد، خواتین اور بچے قید تھے۔ ان میں بہت سے بےگناہ تھے اور ان کا مسلح شورش سے کوئی تعلق نہیں تھا اور حادثاتی طور پر پکڑے گئے تھے۔
یہ وہی وقت تھا جب امریکہ نے فوج کے زیرِ انتظام قید خانوں میں سخت تفتیشی طریقوں کے استعمال کی اجازت دے دی تھی۔ اس وقت کے نائب صدر ڈک چینی نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد کہا تھا کہ امریکہ پر ہر تاریک حربہ جائز ہے۔
واشنگٹن میں حکام نے اسی سوچ کے ساتھ قوانین میں تبدیلیاں کیں تاکہ تفتیش کے ان حربوں کو استعمال کیا جا سکے جنھیں تشدد قرار دیا چکا تھا اور یہ طریقے ابوغریب کے قید خانے میں آزمائے جانے لگے۔ قیدیوں کو عقوبت کا نشانہ بنایا جانے لگا اور بہت سے قیدی یہ عقوبت برداشت نہ کر سکے اور ہلاک ہو گئے۔
ایک تصویر ابوغریب کے قیدی منادل الجمادی کی پلاسٹک بیگ میں لپٹی لاش کی تھی۔ انھیں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے قید کر رکھا تھا۔
سیوٹس نے وہ تمام واقعات بیان کیے جو انھوں نے قیدخانے میں دیکھے تھے۔
نومبر سنہ 2003 کی ایک سرد شام کو انھیں چند انتہائی خطرناک قیدیوں کے لیے مخصوص حصے میں منتقلی میں مدد کرنے کے لیے طلب کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ جب وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے راہداری میں چند برہنہ قیدیوں کو ایک دوسرے کے اوپر لیٹا ہوا دیکھا۔ چارلس گارنر، لینڈی انگلینڈ اور کچھ اور فوجی ان بے بس قیدیوں کے ارد گرد کھڑے قہقہے لگا رہے تھے۔ فریڈرک اور سیوٹس جن قیدیوں کو ساتھ لائے تھے انھیں بھی پہلے سے موجود قیدیوں کے ڈھیر پر ڈال دیا۔
سیوٹس نے کہا 'ہر کوئی یہ کہہ رہا تھا تم یہ کیوں نہیں کر سکتے تم وہ کیوں نہیں کر سکتے۔'
قیدیوں کی کراہوں میں سیوٹس نے دیکھا کہ فوجی ہتھکڑیوں کی وجہ سے ایک قیدی کے ہاتھ نیلے پڑنے لگے ہیں۔
سیوٹس نے گارنر سے کہا: ’دوست، اس قیدی کے ہاتھ کاٹنے پڑ جائیں گے۔ گارنر نے اُس قیدی کی ہتھکڑیاں ڈھیلی کر دیں۔ اس کے بعد سیوٹس کے بقول اس قیدی کی تکلیف کم ہوئی اور اس کے ہاتھوں میں خون کی روانی بحال ہو گئی۔
گارنر نے سیوٹس کو ایک کیمرا تھما دیا اور نارنجی لباس میں ایک قیدی جس کے چہرے پر نقاب پڑا ہوا تھا اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ایک ہاتھ سے اس کا سر پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے مکا بنا لیا۔ سیوٹس نے کہا کہ اس قیدی کا سر ایک جگہ ٹک نہیں رہا تھا اور گارنر نے اس کا سر پکڑ کر تصویر کے لیے پوز بنا لیا۔ سیوٹس نے تصویر بنا لی۔
سیوٹس نے مزید بتایا کہ گارنر نے پھر اس قیدی کو پتہ نہیں کیوں ایک مکا رسید کیا، پھر ایک قہقہہ لگایا۔
سیوٹس نے کہا کہ انھوں نے صرف ایک ہی تصویر بنائی تھی۔ انھوں نے دور فضا میں گھورتے ہوئے یہ ساری کہانی بیان کی۔ انھوں نے یہ سب کچھ ایسے بیان کیا جیسے وہ وہاں خود موجود نہیں تھے بلکہ کسی اور کی کہانی سنا رہے ہوں۔
ابوغریب کی یہ تصاویر جب ٹیلی ویژن پر نشر کی گئیں تو اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا کہ تمام حقائق معلوم کیے جائیں گے اور جو بھی اس میں ملوث پایا گیا انھیں اپنے عمل کا جواب دینا ہو گا۔
سیوٹس اور دس دوسرے فوجیوں کو ان جرائم میں سزا سنائی گئی۔ گارنر کو دس سال قید، فریڈریکا کو آٹھ اور انگلینڈ کو تین سال کی سزا سنائی گئی۔
ان مقدمات سے ان فوجیوں کے جرائم اور ان کی ذاتی زندگی کے مسائل سامنے آ گئے۔ قید سے رہائی کے بعد انگلینڈ مغربی ورجینیا میں اپنے آبائی علاقے فورٹ ایشبے چلی گئیں۔ جہاں وہ اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی ہیں اور گارنر سے ہونے والے اپنے بچے کی پرورش کر رہی ہیں۔
انھوں نے گارنر کی عدم موجودگی میں سزا پانے والے ایک اور فوجی میگن ایبمل سے شادی کر لی ہے۔
اس سکینڈل کے سامنے آنے کے بعد عراق جنگ میں شریک ہونے والے بہت سے فوجیوں کے مطابق امریکہ نے اپنی اخلاقی برتری کھو دی تھی۔
ریٹائرڈ امریکی جرنل سٹینلے میک کرسٹل کے مطابق سنہ 2004 کے بعد ابوغریب میں ہونے والے مظالم کی تصویروں سے پیدا ہونے والے غصے کی وجہ سے بھی عراقی امریکی فوج پر حملے کرتے تھے۔
اس قید خانے کو سنہ 2006 میں عراقی حکام کے حوالے کر دیا گیا اور آٹھ سال بعد اسے بند کر دیا گیا۔ اس قید خانے میں رکھے جانے والے درجنوں قیدیوں نے ایک نجی ٹھیکدار پر ہرجانے کے دعوے دائر کیے جو مترجم فراہم کرتا تھا۔ سنہ 2013 میں 50 لاکھ ڈالر معاوضوں کی مد میں ادا کیے گئے۔
قیدیوں کے ایک وکیل شریف عقیل نے کہا کہ معاوضوں نے لوگوں کو انصاف کا احساس دلایا۔
کویت، جرمنی اور شمالی کیرولینا میں قید میں رہنے کے بعد سیوٹس پنسلوینیا واپس پہنچ گئے۔ انھوں نے کہا کہ شروع شروع میں وہ بہت تلخ ہو گئے تھے اور انھیں اپنے آپ سے نفرت محسوس ہوتی تھی۔
انھیں مکینک کے طور پر نوکری نہیں مل رہی تھی تو انھوں نے منشیات اور شراب کے عادی افراد کی کونسلنگ یا نفسیاتی مدد شروع کر دی۔ 'میں نے سوچا کہ ابوغریب میں قیدیوں کے ساتھ اپنے تجربے کو استعمال میں لاتے ہوئے ان کی مدد کر سکتا ہوں۔'
انھوں نے کہا کہ وہ ان لوگوں سے جنگ کے دوران اپنی غلطیوں کے بارے میں بات کرتے تھے جس پر انھیں بعد میں بہت افسوس ہوا۔
انھوں نے کہا کہ وہ ان لوگوں سے کہتے تھے کہ یہ سب کچھ انھوں نے کیا ہے لیکن اب وہ بدل گئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو کچھ قید خانے میں ہوا وہ ہولناک تھا۔ ان کے خیال میں لوگوں نے کچھ نہیں سیکھا لیکن منشیات اور شراب کے عادی لوگوں کی مدد کر کے انھیں تسکین اور اپنی زندگی کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔
بہت سے لوگ اب بھی ان زخموں کا درد محسوس کرتے ہیں۔ علی القیسی کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ابوغریب کے وہ قیدی ہیں جن کے چہرے پر نقاب ڈال کر تصاویر بنائی گئی تھیں۔ انھوں نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ 'اس تشدد نے ان کی شخصیت کو کچل دیا ہے۔'
سیوٹس کا یہ کہنا کچھ حد تک درست ہے کہ ابوغریب نے ملک کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ تشدد پر سنہ 2009 میں صدر اوباما کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
فوجی تفتیشی طریقوں کو محدود کر دیا گیا اور سی آئی اے کے 'سیاہ' حراستی مراکز اور عقوبت خانوں کو جہاں قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا انھیں بند کر دیا گیا۔
اس کے بعد نئے قوانین وضع کیے گئے جن کے تحت تشدد کرنے والوں چاہے وہ حکومت یا فوج کے ٹھیکوں پر کام کر رہے ہوں انھیں آسانی سے جوابدہ بنایا جا سکتا ہے۔
اس کے باوجود انسانی حقوق کے علمبردار یہ کہتے ہیں کہ قوانین اور حکومتی پالیسیویں میں تبدیلی کے بعد بھی قیدیوں پر تشدد کے حق میں پہلے سے زیادہ لوگ ہیں۔
ابوغریب کی تصویر ہلا دینے والی تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ دھندلی پڑ گئی ہیں۔ ان تصاویر کی وسیع پیمانے پر مذمت کے باوجود حکومتی اداروں پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم پراجیکٹ گورنمنٹ اور سائٹ کی اہلکار کیتھرین ہاکنز کا کہنا ہے کہ تفتیش کے لیے پرتشدد حربوں کے بارے میں لوگوں سے سوال پوچھا گیا تو اکثریت نے ان کے حق میں رائے دی۔
ایک اور تازہ ترین رائے عامہ کے جائزے کے مطابق دو تہائی امریکی تشدد کو جائز سمجھتے ہیں۔
کیتھرین اور کچھ لوگوں کے خیال میں ابوغریب ملک کی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے۔
بش انتظامیہ میں بحریہ کے جنرل کونسل کے عہدے پر رہنے والے ایلبرٹو مورا کا کہنا ہے کہ تشدد کو آپ تاریخ میں دفن نہیں کر سکتے، اور اس کی گونج باقی رہتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2016 میں اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے تو وہ 'واٹر بورڈنگ' جیسے تفتیشی حربوں سے پابندی اٹھا لیں گے اور ایسے طریقوں کی اجازت دے دیں گے جو واٹر بورڈنگ سے کہیں زیادہ ہولناک ہیں۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد ٹرمپ نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ فیصلہ اپنے وزیر دفاع جیمز میٹس پر چھوڑتے ہیں جن کے خیال میں تشدد کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔
لیکن امریکہ کے قومی سلامتی کے نئے مشیر جان بولٹن یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکیوں کو تشدد کے تمام طریقے استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور وہ کسی قیدی سے معلومات حاصل کرنے کے لیے 'واٹر بورڈنگ' کو دوبارہ رائج کرنے کے خیال پر غور کر سکتے ہیں۔
سی آئی اے کی نئی ڈائریکٹر جینا ہیسپیل ایسے ہی ایک حراستی مرکز کی نگران رہ چکی ہیں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خیال میں وہ بش انتظامیہ کے دور میں تفتیش کے لیے پرتشدد طریقے استعمال کرنے کے پروگرام میں شامل رہنے کی وجہ سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے عہدے کے لیے موزوں امیدوار نہیں ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا: 'اس خطرناک دور میں ہمیں ایک موزوں ترین شخص میسر ہے، ایک عورت، جسے ڈیموکریٹ نہیں چاہتے کیونکہ وہ تشدد کے بہت خلاف ہے۔'
جینا ہیسپیل نے اپنی نامزدگی کی منظوری کی سماعت کے دوران کہا کہ وہ پرتشدد طریقوں کو پھر سے شروع نہیں کریں گی اور یہ اعتراف بھی کیا کہ یہ غلط طریقہ تھا۔
ابوغریب کے سکینڈل کے سامنے آنے کے تقریباً 15 سال بعد مورا کا کہنا ہے کہ سیوٹس کے خیال کے برعکس ان کے خیال میں امریکہ میں لوگوں میں کوئی نرم دلی پیدا نہیں ہوئی۔
مورا نے صدر اور کئی دوسرے سیاست دانوں کے اُن بیانات کی طرف اشارہ کیا جن میں اُنھوں نے تشدد کے حق میں بات کی تھی۔
ابھی تشدد کے خلاف قانون اپنی جگہ موجود ہے، لیکن مورا کو ڈر ہے کہ اگر امریکہ عراق کی جنگ کی طرح کسی اور جنگ میں الجھ گیا تو وہ پھر پرتشدد طریقوں پر اتر آئے گا۔
ان کے مطابق ابوغریب سے یہی اجاگر ہوتا ہے۔ ابوغریب غلطی سرزد ہونے کے امکان کی ایک مثال تھی اور پھر اس ظلم کو دہرائے جانے کی۔
No comments:
Post a Comment