Friday, 18 May 2018

UNO: BRUTAL BLOODSHED OF ISRAEL IN GAZA ON INNOCENT PALESTINIANS, OH GOD SAVE EARTH FROM DEVILS

ACTION RESEARCH FORUM: HARDLY ANY NATION DID MORE HOLIGANISM THAN ISEREAL, AMERICA, AUSTRALIA NOW IN LINE,  HOW LONG? 

AS PREDICTED LONG BACK, KNOWING THE TEMPO OF RATIONISTIC HOLLIGANS. GOD CREATED BY DEVINE INTERVENTION THE GALAXY FOR TRUMP & NATAN YAHOO. 

REST HUMANITY FOR BLOODSHED. OH! GOD CLEANING THESE DIRTY DEVILS IS AWAITED BY WHOLE WORLD.  SEE 

ESSAY – CAN AMERICA STAND ALONE; By Charles Kruthammer (Time, October 22, 1990) http://b4gen.blogspot.com/2018/05/essay-can-america-stand-alone-by.html 




Source: https://www.bbc.com/urdu/world-44166941

قوام متحدہ: مبینہ اسرائیلی ’جارحیت‘ کے خلاف تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی قرارداد منظور

اسرائیلتصویر کے کاپی رائٹAFP
اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق نے فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی فوج کی حالیہ کارروائیوں کی تحقیقات کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن غزہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں جمعے کو 29 ممبر ممالک کی حمایت کے بعد قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 'جلد از جلد ایک بین الاقوامی اور آزاد تحقیقی کمیشن بھیجا جائے گا جو کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی مبینہ خلاف ورزیوں اور 'جارحیت' کی تحقیقات کرے گا۔'
اس قرارداد کی مخالفت میں صرف امریکہ اور آسٹریلیا نے ووٹ دیا جبکہ 14 ممالک نے حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق 47 ممالک پر مشتمل ہے۔
قرارداد کے مطابق یہ تحقیقاتی کمیشن '30 مارچ 2018 کے بعد سے غزہ میں بڑی تعداد میں احتجاج کرنے والے شہریوں کے خلاف فوجی کارروائی کے سلسلے میں تمام مبینہ خلاف ورزیوں کا جائزہ لے گا۔'
یہ کمیشن اپنی حتمی رپورٹ اگلے سال مارچ تک پیش کرے گا۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

قرارداد کے منظور ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے ٹوئٹر سے پیغام بھی جاری کیا گیا جس میں قرارداد کی منظوری اور اس کی حمایت اور مخالفت میں ملنے والے ووٹوں کے بارے میں معلومات تھیں۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ نے اسرائیل کے فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو مکمل طور پر ’نامتناسب‘ قرار دیا ہے۔
زید رعاد الحسین نے جنیوا میں منعقدہ ایک اجلاس میں بتایا کہ غزہ کے رہنے والے ’موثر انداز سے زہر آلود پنجرے‘ میں بند ہیں اور اسرائیل کو غزہ کا قبضہ ختم کرنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ زید راد الحسین غزہ کی صورتحال پر منعقد ہونے والے ہنگامی اجلاس میں بتایا کہ دونوں جانب سے ہونے والے ہلاکتوں کی تعداد میں واضح فرق اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ردعمل مکمل طور پر غیر مناسب تھا۔
انھوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق پیر کو پتھر لگنے سے ایک اسرائیلی فوجی معمولی زخمی ہو گیا جبکہ مظاہرے کے مقام پر 43 فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد مزید 17 فلسطینی مظاہروں کی جگہ پر مارے گئے۔
اسرائیلی فوجتصویر کے کاپی رائٹEPA
زید رعاد الحسین نے کہا کہ اس بات کے بہت کم شواہد ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے جانی نقصان کو کم سے کم رکھنے کے حوالے سے کوئی بھی کوشش کی گئی ہو۔
انھوں نے مقبوضہ علاقے میں شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے بنائے گئے بین الاقوامی قانون کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی کارروائیاں دانستہ قتل کے زمرے میں آ سکتا ہے اور یہ فورتھ جنیوا کنونیشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
زید رعاد الحسین نے غزہ میں ہونے والے تشدد کی بین الاقوامی سطح پر آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی حمایت کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تشدد کے ذمہ داروں کو لازمی انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔
اسرائیلی سفیر ایووا ریز نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے اپنے شہریوں کو ممکنہ نقصان سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے۔
انھوں نے کہا کہ غزہ کے عسکریت پسند حکمرانوں نے جان بوجھ کر لوگوں کو ہلاکت میں ڈالا۔
پیر کو اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے احتجاج کرنے والے 60 کے قریب فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ گذشتہ سات ہفتے سے اسرائیل غزہ سرحد پر نئی باڑ کے خلاف جاری مظاہروں میں پیر کو سب سے زیادہ پرتشدد دن تھا۔
پر تشدد واقعات پر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اسرائیلی فوج کی جانب سے کیے گئے 'قتل عام' کی شدید مذمت کی جبکہ اقوام متحدہ نے اپنے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے 'انسانی حقوق کی انتہائی شرمناک پامالی‘ قرار دیا تھا۔
امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی
پیر کے روز ہی یروشلم میں موجود امریکی قونصل خانے میں ایک چھوٹے اور عبوری سفارتخانے کا افتتاح ہوا تھا۔ فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے خبردار کیا تھا کہ یروشلم میں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے سے مشرقِ وسطیٰ مزید عدم استحکام کا شکار ہو گا۔
واضح رہے کہ اسرائيل یروشلم کو اپنا ازلی اور غیر منقسم دارالحکومت کہتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی یروشلم پر اپنا دعویٰ رکھتے ہیں جس پر اسرائیل نے سنہ 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ فلسطینی اسے اپنی مستقبل ریاست کا دارالحکومت کہتے ہیں۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

خیال رہے کہ فلسطینی سفارتخانے کی منتقلی کو پورے بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کی امریکی حمایت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ فلسطینی اس شہر کے مشرقی حصے پر اپنا حق جتاتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے سے اس مسئلے پر دہائیوں سے جاری امریکی غیرجانب داری میں فرق آیا ہے اور وہ بین الاقوامی برادری کی اکثریت سے علیحدہ ہو گیا ہے۔

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment