Tuesday, 1 May 2018

PAK; ARCHIVES OF BUDH RELIGION IN KHYBER PAKHTOON KHAWA


Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-43958819

خیبر پختونخوا میں بودھ مذہب کی صدیوں پرانی یادگار

بھاملہ ستوپ یا مندرتصویر کے کاپی رائٹFARAN RAFI/BBC
Image captionبودھ مذہب کا بھملا سٹوپا پاکستان کی شمال مغربی علاقے خیبر پختونخوا میں موجود ہے۔ برطانوی آثار قدیمہ کے ماہر سر جان مارشل نے سنہ 1929 میں اس مقام کو دریافت کیا تھا
بھاملہ ستوپ یا مندرتصویر کے کاپی رائٹFARAN RAFI/BBC
Image captionآثار قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ 2300 سال پہلے بدھ بھکشوؤں کا اس علاقے میں بول بالا تھا۔ بودھ مذہب کی اس قدیم یادگار میں مہاتما بدھ کے دور کے تقریبا 500 نوادارات ملے ہیں
بھاملہ ستوپ یا مندرتصویر کے کاپی رائٹFARAN RAFI/BBC
Image captionیہاں موجود تمام مجسموں میں مہاتما بدھ کا یہ واحد مجسمہ ہے جو تقریباً اصل حالت میں موجود ہے
بھاملہ ستوپ یا مندرتصویر کے کاپی رائٹFARAN RAFI/BBC
Image captionاس سٹوپا میں مہاتما بدھ کے 14 میٹر لمبے مجسمے کی باقیات بھی ملی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مہاتما بدھ کا لیٹا ہوا مجسمہ ہے اور یہ تیسری صدی عیسوی کا بتایا جاتا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اس قسم کا دنیا کا قدیم ترین مجسمہ ہے۔
بھاملہ ستوپ یا مندرتصویر کے کاپی رائٹFARAN RAFI/BBC
Image captionخیبر پختونخوا کے آثار قدیمہ کے شعبے نے اس علاقے میں سنہ 2012 میں کام شروع کیا تھا۔ اس کے بعد بودھ راہبوں کے اس مسکن کا پتہ چلا۔ ایک اندازے کے مطابق اس خانقاہ کی تعمیر چوتھی صدی عیسوی میں ہوئی تھی۔ ہندوستان پر حملہ کرنے کے لیے جب ہون اس علاقے سے گزرے تو انھوں نے اسے تاراج کر دیا
بھاملہ ستوپ یا مندرتصویر کے کاپی رائٹFARAN RAFI/BBC
Image captionیہ سٹوپا خان پور ڈیم کے قریب واقع ہے۔ حکومت اسے مقبول سیاحتی مقام بنانا چاہتی ہے لیکن خراب سڑکوں کی وجہ سے سیاحوں کو یہاں آنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
بھاملہ ستوپ یا مندرتصویر کے کاپی رائٹFARAN RAFI/BBC
Image captionبھملا کے بودھ آثار اقوامِ متحدہ کے ثقافتی ورثے کے ادارے یعنی یونیسکو کی اس فہرست میں شامل ہیں جس میں ایسے مقامات کو عالمی سطح پر تحفظ دیا گیا ہے۔ کھدائی کے دوران یہاں سے حاصل ہونے والی مختلف نوادارات کو صوبے کے مختلف عجائب گھروں میں رکھا گيا ہے۔ زمانہ حال میں خزانے کی تلاش کرنے والوں نے بھی اسے نقصان پہنچایا ہے۔
۔

No comments:

Post a Comment